اعضاء کے عطیہ میں تلنگانہ ملک بھر میں سرفہرست

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 07-08-2025
اعضاء کے عطیہ میں تلنگانہ ملک بھر میں سرفہرست
اعضاء کے عطیہ میں تلنگانہ ملک بھر میں سرفہرست

 



حیدرآباد: انسانی زندگی کی بقا کے لیے جسمانی اعضاء کا درست اور مکمل طور پر کام کرنا نہایت اہم ہے، لیکن ملک میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جو مختلف طبی وجوہات کے باعث اپنے اہم اعضاء کی ناکامی سے دوچار ہیں اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ایسے افراد کے لیے اعضاء کی پیوندکاری ایک نئی زندگی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر کسی شخص کے انتقال کے بعد تدفین یا جلانے سے قبل اس کے جسم کے قابلِ استعمال اعضاء عطیہ کر دیے جائیں تو اس ایک عمل سے کئی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

مرکزی وزارتِ صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں ہر دس لاکھ افراد پر اوسطاً 0.8 اعضاء کے عطیات ریکارڈ کیے گئے، جب کہ تلنگانہ میں یہ شرح 4.88 رہی، جو کہ ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس شاندار کارکردگی پر نیشنل آرگن اینڈ ٹشو ٹرانسپلانٹیشن آرگنائزیشن (NOTTO) کی جانب سے تلنگانہ کو ایک ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔ گزشتہ سال ریاست میں 188 برین ڈیتھ افراد سے 725 اعضاء حاصل کیے گئے، جن کے ذریعے کئی مریضوں کو نئی زندگی ملی۔

تاہم اس پورے عمل میں زیادہ تر عطیات نجی اسپتالوں کے ذریعے کیے گئے، جبکہ سرکاری اسپتالوں کی شمولیت محدود رہی۔ عثمانیہ اور گاندھی جیسے بڑے سرکاری اسپتالوں میں برین ڈیتھ کے متعدد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن سہولیات کی کمی کے باعث عطیات کو مکمل طور پر ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک برین ڈیتھ مریض کے اعضاء سے کم از کم سات افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔

قانون کے تحت، جس اسپتال میں برین ڈیتھ ہوتی ہے، وہاں تین اعضاء رکھے جاتے ہیں، جب کہ دیگر اعضاء ضرورت مند مریضوں والے اسپتالوں کو دیے جاتے ہیں۔ مگر سہولیات کی کمی کی وجہ سے اکثر سرکاری اسپتال یہ اعضاء نجی اسپتالوں کو منتقل کر دیتے ہیں۔

اعضاء کی کامیاب پیوندکاری کے لیے خصوصی آپریشن تھیٹر، ماہر سرجن، معاون طبی عملہ اور مخصوص وارڈز درکار ہوتے ہیں۔ ایک واحد پیوندکاری سرجری کے لیے 30 سے 40 تربیت یافتہ افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری اسپتالوں میں انفرااسٹرکچر اور ماہرین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو وہاں بھی عطیات کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے۔

ملک میں اعضاء کے عطیہ کو فروغ دینے کے لیے عوامی سطح پر وسیع بیداری مہم چلانا ناگزیر ہے۔ حکومت کو اس سمت میں اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ساتھ ہی، سماجی رہنما، مذہبی شخصیات، سیاسی قائدین اور مشہور شخصیات کو بھی اعضاء کے عطیہ کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ہر سال سڑک حادثات میں متعدد افراد برین ڈیتھ کا شکار ہوتے ہیں، اگر ان کے اہلِ خانہ اعضاء عطیہ کرنے پر آمادہ ہوں تو ملک میں اعضاء کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ اعضاء کی ترسیل کو مفت بنانے کے اقدامات کرے تاکہ غریب مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے۔

تلنگانہ حکومت نے گاندھی اسپتال میں اعضاء کے عطیہ اور پیوندکاری کے فروغ کے لیے ایک خصوصی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسپتال کی آٹھویں منزل پر جدید سہولیات سے لیس آپریشن تھیٹر اور وارڈز تیار کیے جا رہے ہیں، جن پر 35 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ اس مرکز میں گردے، جگر، دل، پھیپھڑے اور دیگر اہم اعضاء کی پیوندکاری ایک ہی جگہ ممکن ہوگی۔ اگر یہ مرکز جلد مکمل ہو جائے تو کم آمدنی والے مریضوں کو مفت اور معیاری طبی خدمات حاصل ہو سکیں گی۔