ممبئی: ممبئی ہائی کورٹ نے 29 سالہ ایک شخص کے خلاف عصمت دری کا مقدمہ یہ کہتے ہوئے خارج کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ صرف اس بنیاد پر اسے "پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکشول آفینسز (POCSO) ایکٹ" کے تحت الزامات سے بری نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے متاثرہ نابالغ لڑکی سے شادی کر لی تھی اور اب ان کا ایک بچہ بھی ہے۔
ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے 26 ستمبر کو جاری اپنے فیصلے میں اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ وہ 17 سالہ لڑکی کے ساتھ باہمی رضامندی سے تعلقات میں تھا اور شادی کا اندراج اس وقت کیا جب وہ 18 برس کی ہو گئی۔ جسٹس ارمیلا جوشی فالکے اور جسٹس نندیش دیشپانڈے کی بنچ نے کہا کہ نابالغوں کے درمیان یا ان کے ساتھ تعلقات میں "رضامندی" ایک غیر متعلقہ امر ہے کیونکہ POCSO ایکٹ کے تحت اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
عدالت نے ملزم اور اس کے اہل خانہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں اکولہ پولیس کی جانب سے جولائی 2025 میں درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان پر بھارتیہ نیائے سنہتا (BNS)، POCSO ایکٹ اور "چائلڈ میریج پروہیبیشن ایکٹ" کے تحت مقدمہ درج ہوا تھا۔ استغاثہ کے مطابق متاثرہ کی عمر شادی کے وقت 17 سال تھی اور اس نے مئی 2025 میں ایک بچے کو جنم دیا۔
متاثرہ کی شادی اس وقت ملزم سے کر دی گئی جب اس کے گھر والوں کو معلوم ہوا کہ ملزم نے اس کا جنسی استحصال کیا ہے۔ ملزم نے دعویٰ کیا کہ اس کے تعلقات لڑکی کے ساتھ باہمی رضامندی سے تھے اور شادی کا اندراج اس کے 18 برس کی ہونے کے بعد ہوا۔ مزید یہ بھی کہا کہ اگر اس پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا دی گئی تو متاثرہ اور اس کا بچہ متاثر ہوں گے اور انہیں سماج میں قبول نہیں کیا جائے گا۔
متاثرہ نے بھی عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ اسے ایف آئی آر خارج کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم بنچ نے کہا کہ POCSO ایکٹ کا بنیادی مقصد 18 سال سے کم عمر بچوں کو جنسی استحصال، ہراسانی اور چائلڈ پورنوگرافی سے بچانا ہے اور متاثرین کو ایک معاون ماحول فراہم کرنا ہے۔
عدالت نے کہا، "بچوں کی حفاظت کے لیے ہی POCSO ایکٹ نافذ کیا گیا تھا۔" عدالت نے یہ بھی ذکر کیا کہ "کیا نوعمر لڑکے لڑکیوں کے درمیان محبت کے تعلقات کی کوئی عمر متعین ہونی چاہیے؟" یہ سوال فی الحال سپریم کورٹ کے زیر غور ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگرچہ اس معاملے میں شادی مسلم رسم و رواج کے مطابق ہوئی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شادی کے وقت متاثرہ کی عمر 18 برس سے کم تھی اور بچے کو جنم دیتے وقت بھی وہ 18 سال کی نہیں ہوئی تھی۔
بینچ نے کہا کہ شادی کے وقت ملزم کی عمر 27 برس تھی اور اسے سمجھنا چاہیے تھا کہ لڑکی کے 18 برس کی عمر تک انتظار کرنا ضروری ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ "محض اس بنیاد پر کہ لڑکی نے بچہ پیدا کیا ہے، ملزمان کے غیر قانونی افعال کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔" ہائی کورٹ نے کہا کہ "POCSO ایکٹ صنفی طور پر غیر جانبدار ہے اور 18 سال سے کم عمر افراد کے ساتھ کسی بھی جنسی سرگرمی کو جرم قرار دیتا ہے۔
اس ایکٹ کے تحت نابالغوں کے تعلقات میں باہمی رضامندی غیر متعلقہ ہے۔" عدالت نے ملزم اور اس کے اہل خانہ کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ ایف آئی آر خارج کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔