نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک ٹرانس جینڈر خاتون ٹیچر کو معاوضہ دینے کا حکم دیا ہے جسے اس کی صنفی شناخت کی وجہ سے اتر پردیش اور گجرات کے دو نجی اسکولوں نے ملازمت سے برطرف کردیا تھا۔ جسٹس جے بی پاردیوالا کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ یہ فیصلہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔
سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس آشا مینن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ یہ کمیٹی مساوی مواقع، جامع طبی دیکھ بھال، صنفی تنوع، اور صنفی عدم مساوات جیسے مسائل پر غور کرے گی۔ واضح ہوکہ ہندوستان میں، ٹرانس جینڈر افراد کو سماجی بھید بھاؤ اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم حکومت اور عدالتوں نے ان کے حقوق کے تحفظ اور انھیں معاشرے میں برابر مقام دلانے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔
سماجی اخراج: بہت سے ٹرانس جینڈر افراد کو اپنے خاندان اور معاشرے سے اخراج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بے گھر اور تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں ملازمت حاصل کرنے اور ترقی کے مواقع میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو غربت اور بے روزگاری کا باعث بنتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی بھید بھاؤ کے سبب انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
صحت کی خدمات تک رسائی بھی محدود ہوتی ہے اور انہیں طبی عملے کی طرف سے بدسلوکی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو اکثر جسمانی تشدد اور ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں ٹرانس جینڈر افراد کو "تیسری جنس" کے طور پر تسلیم کیا اور انہیں آئین کے تحت برابری اور وقار کے تمام بنیادی حقوق دینے کا حکم دیا۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو تعلیمی اور روزگار کے شعبوں میں ریزرویشن فراہم کرے۔