نئی دہلی:سپریم کورٹ نے مدھیہ پردیش کے بیتول ضلع سے تعلق رکھنے والے قانونی طالب علم انِکت (عرف انُو) کی نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت پیشگی حراست کو فوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور اس حراست کو بالکل غیر منطقی اور غیر مناسب قرار دیا ہے ۔ وہ ۱۱ جولائی ۲۰۲۴ کو اس قانون کی دفعہ ۳(۲) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ اس وقت وہ قتل کی کوشش اور دیگر الزامات میں پہلے ہی عدالتی حراست میں تھا ۔
عدالتی فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ حبسِ احتیاطی کی یہ کارروائی عوامی امن کو لاحق حقیقی خطرے کی بنیاد پر کی جانی چاہیے، نہ کہ محض "قانون و انتظامیہ" کے معمولی مسائل پر ۔ اس ضمن میں عدالت نے کہا یہ صرف قانون و انتظامیہ کی خلاف ورزی کا مقدمہ ہے، جب کہ این ایس اے کے تحت حراست کا مقصد عوامی امن کی حفاظت ہونا چاہیے۔
مزید برآں، ضلعی کلکٹر نے انِکت کی اپیل براہِ راست مسترد کردی تھی، جبکہ اس کو صوبائی حکومت کو بھیجنا ضروری تھا، جو عمل میں ایک سنگین قانونی خلا ہے ۔ دستاویزی حقائق کے مطابق، انِکت پر مجموعی طور پر نو مجرمانہ مقدمات درج تھے جن میں سے پانچ میں انہیں بریت مل چکی ہے، ایک کیس میں صرف جرمانہ ہوا، دو زیرِ سماعت ہیں (جن پر ضمانت منظور ہے) اور تازہ ترین معاملے (۲۰۲۴) میں انہیں ۲۸ جنوری ۲۰۲۵ کو ضمانت مل گئی تھی ۔
اس لیے وہ صرف این ایس اے کی بنیاد پر ہی جیل میں تھا۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک ہی مقدمے میں ۲۵ فروری ۲۰۲۵ کو ان کے والد کی جانب سے دائر ہبئیس کورپس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "عادتاً مجرم" قرار دیا اور کہا کہ وہ عوامی امن کے لیے خطرہ ہیں ۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے انِکت کی فوری رہائی کا فیصلہ سنایا، بشرطیکہ وہ کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہ ہوں ۔
یہ فیصلہ اس نکتے کی یاد دہانی بھی ہے کہ این ایس اے کی شق ۳(۲) کے تحت حراست کا مقصد صرف اور صرف وقتی "قانون و انتظامیہ" کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر نہیں ہو سکتی — بلکہ اصل میں ایسی صورتوں میں ہی آئینی طور پر قابلِ قبول ہے جب کوئی شخص عوامی امن و سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ ہو۔ اگر وہ پہلے سے عدالتی حراست میں ہے یا اس کے خلاف سنگین خطرے کا ثبوت موجود نہیں، تو این ایس اے کا استعمال مناسب نہیں ۔
اس فیصلے نے نہ صرف انِکت کی رہائی کا راستہ کھولا، بلکہ حکومتی حکام خاص طور پر ضلعی کلکٹرز کو احتیاط سے این ایس اے نافذ کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ عدالتی رائے واضح ہے کہ یہ طاقت صرف سنجیدہ اور درست حالات میں استعمال کی جانی چاہیے تاکہ شہری آزادیوں کی پاسداری ہوسکے۔