اشرف النسا بیگم : تعلیم کے لئے ایک خاتون کی بے مثال جدوجہد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
استانی کی قبر کے قریب تدفین کی خواہش کی تھی
استانی کی قبر کے قریب تدفین کی خواہش کی تھی

 

 ثاقب سلیم

بجنور کے بانہیرا میں 1850 کی دہائی کے اوائل میں یہ ایک گرم اور مرطوب دوپہر تھی۔ ایک چھوٹی بچی جس کی عمر قریب دس سال تھی ، جاۓ نماز پر بیٹھی ہوئی نماز سے فارغ ہو کر اپنے رب کے سامنے رو رہی تھی-  وہ  دعا  کر رہی تھی کہ   ”اے اللہ ، میرے اوپر رحم فرما   اور  مجھے  میری منزل تک پہنچا۔ اگر کبھی  میں   پڑھنا اور لکھنا  سیکھ   گئی تو   تو اسے  ہر ایک کو جو اس کا خواہش مند ہے  ضرور  سکھاؤں گی   اور یہاں تک کہ زبردستی ان لوگوں کو بھی جو اسے  سیکھنا    بھی نہیں چاہتے ۔    اللہ نے اس کی دعا سنی   قبول بھی کی ۔

یہ چھوٹی بچی اشرف النسا بیگم تھیں جو اپنے طالب علموں کے بیچ بی بی اشرف کے نام سے جانی جاتی تھیں ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کیا گیا تھا اور کوئی بی بی کو پڑھنے یا لکھنے کا فن سکھانا بھی نہیں چاہتا تھا ، انہوں نے بغیر کسی استاد کے اپنی کوششوں سے پڑھنے لکھنے کا فن سیکھا تھا۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے گیۓ اپنے وعدے کو پورا کیا اور چھوٹی لڑکیوں کو پڑھنے لکھنے کا فن سکھایا۔ ہندوستان میں کسی ہفتہ روزہ کی پہلی خاتون ایڈیٹر محمدی بیگم بطور استاد اور مفکر ان سے اتنی متاثر تھیں کہ انہوں نے خود کو بی بی کی قبر کے قریب دفن کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔

بی بی اشرف 1840 میں بجنور میں اس زمانے میں پیدا ہوئیں جب کسی بھی مذہب کی خاتون کو لکھنا یا پڑھنا سیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مسلم خواتین کو قرآن کی تلاوت سیکھنے کی اجازت دی گئی ، عربی الفاظ کے معنی سمجھے بغیر ۔ بی بی کے گھر کی خواتین بشمول ان کی والدہ ، اردو پڑھنا سیکھتی تھیں کیونکہ خواتین اپنی محفلوں میں مرثیہ پڑھتی تھیں۔

جب بی بی سات سال کی تھیں تو ان کے دادا نے ایک بیوہ عورت کو ان کو اور انکے کزنز کو پڑھانے کے لئے مقرر کیا ۔ جب وہ ساتویں پارے تک پہنچیں تو ان کی استانی کی شادی ہوگئی اور ایک ناراض دادا نے اسے گھر میں داخلے سے منع کردیا۔ ان کی نظر میں ایک بیوہ عورت کے لئے دوسری شادی کرنا ایک شرمناک فعل تھا ۔ دوسری لڑکیوں نے تو اپنی ماؤں کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا جاری رکھا جب کہ بی بی کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ بی بی پڑھنا چاہتی تھیں جس کے لئے انہوں نے اپنی خالہ اور دیگر خواتین سے التجا کی کہ وہ انہیں پڑھائیں لیکن بدلے میں انہیں صرف طنزیہ تبصرے سننے کو ملتے تھے ۔ وہ اللہ کی بارگاہ میں اپنی فریاد لے کر جاتیں اور روتی تھیں ۔

بی بی کی دادی نے انھیں بار بار قرآن کے سات پاروں کو پڑھنے کو کہا کیونکہ اس سے ان کی متوفی ماں کو راحت ملے گی۔ اب اسے یا تو بی بی کی مضبوط قوت ارادی کا ثمرہ کہیں یا اللہ کی خاص رحمت ، جلد ہی وہ پورے قرآن کو پڑھنے میں کامیاب ہو گئیں ۔ بغیر کسی استاد کے انہوں نے پورا قرآن پاک پڑھ لیا ۔

ناظرہ قرآن سیکھنے کے بعد اگلا کام اردو سیکھنا تھا۔ بی بی اردو پڑھنا چاہتی تھیں تاکہ وہ مذہبی اشعار اور ادب بھی پڑھ سکیں۔انہوں نے کنبہ کی خواتین سے التجا کی لیکن اس بار بھی انہوں نے بی بی کی سرزنش کر دی ۔ اس بار انہوں نے مذھبی نظموں کی کتابیں لیں اور ان کی نقل شروع کردی۔ یہ ایک نو عمرمعصوم بچی کی عزیمت اور غیر معمولی قوت ارادی کی لازوال کہانی ہے جسے پڑھنے لکھنے اور خواندہ بننے کے جنون کے سوا کسی دوسری چیز کا خیال نہیں تھا ۔ بی بی مٹی برتن پر لگی کالک سے روشنائی اور جھاڑو سے قلم بناتیں اور پھر ان کی مدد سے وہ ایک کاغذ پر کتابوں کے متن کی نقل کو لکھتیں ۔ اس طرح انہوں نے متعدد کتابیں نقل کیں۔ وہ نہ تو پڑھ سکتی تھیں اور نہ ہی لکھ سکتی تھیں پھر بھی اس نے ان کتابوں کو کاپی کیا۔ ذہن نشین رہے کہ انہیں یہ سب خفیہ طور پر کرنا پڑا کیونکہ اس ماحول میں خواتین کے لئے لکھنا ممنوع تھا۔

ایک دن جب وہ قرآن کریم پڑھ رہی تھیں تبھی ایک لڑک جو کہ ان کے والد کا کزن تھا ، آیا اور ان سے قرآن مجید کو سکھانے کی گزارش کی ۔ اس نے سبق یاد نہ کرنے کی وجہ سے پڑنے والی مار کے نشانات بی بی دکھاے ۔ بی بی نے اس کی مدد کرنا شروع کردی۔ وہ خود اس وقت مشکل سے دس سال کی تھیں۔ ایک دن انہوں نے اس لڑکے سے ، جو ان سے بہت چھوٹا تھا ، کو اردو پڑھانے کو کہا۔ تھوڈی ہچکچاہٹ کے بعد وہ مان گیا ۔ ظاہر ہے کہ وہ کوئی استاد تو نہیں تھا لیکن بی بی کے لئے تو یہ تاریک سرنگ میں روشنی کی مانند تھا۔ اس نے بی بی کو اردو کی کتاب کے صرف تین صفحات ہی سکھاے تھے کہ اسے دہلی روانہ کر دیا گیا ۔ کتاب بی بی کے پاس ہی رہی۔

بی بی اشرف نے خود سے اردو کے الفاظ پڑھنا شروع کردیئے۔ دھیرے دھیرے وہ ان صفحات کو بھی پڑھنا سیکھ گئیں جو انھوں نے جھاڑو کی تیلیوں کی مدد سے لکھے تھے ۔ ان کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ تھی۔ اس تحفے پر انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ انہیں احساس ہوا کہ اب وہ لکھ بھی سکتی ہیں ۔

خواتین کو جلد ہی بی بی کی صلاحیتوں کا پتہ چل گیا۔ انہوں نے انہیں اپنے درمیان رکھا۔ بی بی محلے کی تمام خواتین کے لئے خط لکھنے لگیں ۔ جب وہ اپنے شوہروں کے لئے خط لکھواتی تھیں تو ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنا دل نکال کر رکھ رہی ہوں ۔

اسی دوران ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف 1857 کی بغاوت شروع ہوئی ۔ بی بی کے والد اور چچا گوالیار میں تھے۔ اٹھارہ ماہ تک خط و کتابت رکی رہی ۔ جب حالات معمول پر آے تو ان کے والد نے ایک خط لکھ کر ان کی خیریت پوچھی۔ جواب میں دو خطوط بھیجے گئے تھے ، ایک ان کی دادی کے بھائی نے لکھا اور دوسرا خود بی بی نے ۔

بی بی کے والد نے جواب دیا کہ چچا جان کے خط میں تو صرف اہلخانہ کی خیریت کا احوال ہے جب کہ ان کی بیٹی کے خط میں 1857 کے تمام واقعات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ اس خط نے تو انہیں اخبار یا تاریخ کی کتاب پڑھنے کا احساس دلایا ہے ۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ اس نے اسے لکھا کیسے ۔ جب اسے معلوم ہوا کہ یہ اس کے اپنے عزم اور لگن کا نتیجہ ہے تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا ۔ بی بی کے والد نے بیٹی کے اس کارنامے کی خوشی میں اس کے لئے تحائف بھیجے ۔

بی بی کے چچا کا رد عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ انہوں نے دوران ملامت ایک خط لکھا۔ خط میں بی بی سے کہا گیا کہ وہ کبھی کسی مرد یا کسی شادی شدہ عورت کے لئے خط نہیں لکھیں گی۔ انہوں نے ایک لمبے عرصے تک اس وعدے کی پاس داری کی لیکن ایک دن محمدی بیگم جن کی شادی سید ممتاز سے ہوئی تھی، ان کے لئے بی بی نے خط لکھ دیا ۔ اس کے چچا نے اس ’گناہ‘ کے لئے انھیں کبھی معاف نہیں کیا۔

شادی کے بعد بی بی اپنے شوہر سید علمدار حسین کے ساتھ لاہور شفٹ ہوگئیں۔ 1878 میں اپنے شوہر کی موت کے بعد انہوں نے وکٹوریہ گرلز اسکول لاہور میں پڑھانا شروع کیا۔ پچیس سال تک انہوں نے کم سن بچیوں کو تعلیم دے کر اس وعدے کو پورا کیا جو انہوں نے ایک بچی کی حیثیت سے کبھی اللہ سے کیا تھا۔ محمدی بیگم ان کی شاگردوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے بعد میں بی بی کو اپنے جریدے تہذیب نسوان کے لئے لکھنے پر راضی کیا۔ محمدی بیگم نے اپنے آپ کو اپنی استانی کی قبر کے ساتھ دفن کرنے کی وصیت کی- بعد میں بیگم حجاب امتیاز ، جو ہندوستان کی معروف مصنفہ اور پہلی مسلمان خاتون پائلٹ ہیں ، نے بھی خود کو وہاں دفن کرنے کی خواہش ظاہر کی۔