ڈاکٹرثانی اثنین خاں: بچوں کی اسلامی کتابوں کے مصنف

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-09-2021
ڈاکٹرثانی اثنین خاں
ڈاکٹرثانی اثنین خاں

 

 

شاہ عمران حسن، نئی دہلی

ہم گیجٹس کے دور میں جی رہے ہیں،کیا بچے اور کیا بزرگ ہر کوئی ایک نئے جنون میں غرق ہے،لوگ خود کو بھول گئے تو کتابوں کو بھولنے کی شکایت کیا کی جائے اور کس سے کی جائے۔ اب ماہرین چیخ چیخ کرکہہ رہے ہیں کہ اس عادت کو بدلو ورنہ مستقبل میں آنے والی نسلیں بہت سی مثبت عادتوں سے ناواقف ہو جائیں گی۔جن میں ایک ہے کتابوں کا شوق۔ کتابوں سے لگاو اور کتابیں پڑھنے کی عادت ہے۔

کہتے ہیں ذہن سازی میں کتب بینی کا بہت اہم کردار ہوتا ہے لیکن اس دور میں بچے بھی گیجٹس کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ،اس ماحول میں بچوں کو کتابوں کی جانب راغب کرنا بہت اہم تو ہے لیکن آسان نہیں ۔جو بچے آج موبائل اور ٹیب میں مختلف ایپس سے لطف اندوز ہورہے ہیں انہیں صفحات کی ورق گردانی کا عادی بنانا آسان نہیں۔ یہ ایک مشن کی طرح ہے۔ہم جانتے ہیں کہ بچوں کے ذہن میں اچھی اور اعلیٰ باتیں پہنچانے میں خوبصورت اور باتصویر کتابیں بہت ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں کیونکہ کہیں نہ کہیں  خوبصورت کتابیں بچوں کے لیے کشش کا باعث بن سکتی ہیں۔

اسی سوچ اور فکرکےساتھ عالم اسلام میں بچوں کے لیے موجودہ دور کے مطابق جن لوگوں نے خوبصورت اسلامی کتابیں تیار کی ہیں ان میں ایک اہم ڈاکٹر ثانی اثنین خان کا بھی ہے۔   

ثانی اثنین خاں نے مختلف واقعات کے ساتھ مختلف کارٹون اور خوبصورت تصاویر سے کتابوں کی تزئین کی ہے۔ اس کے علاوہ اشاریے اور اسکیچ سے بچوں کے ذہن میں اعلیٰ اقتدارکی باتیں پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے بہت سے حصے میں اُن کی کتابیں بچے بڑے ہی شوق سے پڑھتے ہیں، جس سے بچوں کے اندر اعلیٰ اقدار،امن و شانتی سچائی اور ایمانداری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔

awaz

دور جدید کے بچے

موجودہ دورمیں ہمارا ایک اہم مسئلہ اسلامی تشخص کو برقراررکھنے کا بھی ہے ۔ انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ سے آپ یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرائے ، گرچہ وہ طبقہ یہ ضرورچاہتا ہے کہ ان کے بچے بھی دین سے واقف ہوسکیں، اس کی بس ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ جدید معیار کے مطابق اسلامی کتابیں بچوں کے لیے تیارکی جائیں۔ تبھی ایلیٹ کلاس(Elite class) یا طبقہ خاص کی اسلامی اقدارتک رسائی ممکن ہے ۔ان سطورکولکھتے ہوئے راقم الحروف کو بہت حیرت ہورہی ہے کہ ہم موبائیل اور تکنالوجی کے جدید دورمیں پرانی روایتوں کے ذریعہ اپنے بچوں میں دینی اقدار پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری ساری تگ ودو سعی لاحاصل بن کررہ جاتی ہے ۔

بعض اوقات توہمارے بچوں کے مذہبی استاد کو یہ تک احساس نہیں رہتا کہ وہ بچوں کو کیا بتارہے ہیں اوراس کا اثر بچوں پر کیا پڑرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی طبقہ اور غیر مذہبی طبقہ میں زبانی دوری(Language gap) پیدا ہوتی جارہی ہے۔ سچائی یہی ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ اندازِ کلام اوراندازِ بیان تبدیل ہوجاتا ہے۔ اوربہرصورت ہمیں حالات کی رعایت کرتے ہوئے اپنی بات رکھنی پڑتی ہے ،تبھی ہماری باتیں سنی جائیں گی اورہماری باتوں کا وزن ہوگا۔

مذکورہ باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ثانی اثنین خاں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اِس بات کا بخوبی احساس ہوجاتا ہے کہ ثانی اثنین خاں نے موجودہ دورکی ذہنی سطح اورعلمی معیار کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد بچوں کے لیے کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ اور اس میدان میں وہ کافی کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

ثانی اثنین خاں کے کام کا اعتراف بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے۔ مختلف واقعات کے ساتھ مختلف کارٹون اور خوبصورت تصاویر سے کتابوں کی تزئین کی گئی ہے۔ مختلف اشاریے اور اسکیچ سے بچوں کے ذہن میں باتیں پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے بہت سے حصے میں اُن کی کتابیں بچے بڑے ہی شوق سے پڑھتے ہیں، جس سے بچوں کے اندر اعلیٰ اقدار، امن و شانتی، سچائی اور ایمانداری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔

ثانی اثنین خاں نے سے ایک انٹرویو کے ذیل میں کہا کہ ہمارے درمیان جو بچوں کی اسلامی کتابیں موجود ہیں وہ پرکشش نہیں ہیں۔ اس بات کو میں کافی عرصے سے محسوس کررہا تھا ،میں نے لوگوں سے باتیں کیں اور لوگوں کواس کام کے لیے تیار کیا کہ وہ اس سلسلے میں اچھی کتابیں شائع کریں ۔ لیکن کسی نے اس سلسلے میں کوئی پہل نہیں کی ۔

انھوں نے کہا کہ میں اپنے والد مولانا وحید الدین خاں کے ہمراہ یوایس اے، یوکے اور دیگر ممالک میں گیا لیکن وہاں بھی بہت کم چیزیں جدید معیار کے مطابق نظرآئیں۔  بالآخر میں نے بذات خود فیصلہ کیا کہ یہ کام مجھے کرنا ہے اورپہلی کتاب میں نے1999 ءمیں لکھی جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اس سے میرے اندر حوصلہ پیدا ہوا۔ پھر میں نے کام کو آگے بڑھایا۔ یہ ساری وجوہات ہیں جن کے سبب آج ثانی اثنین خاں کی لکھی ہوئی کتابیں بچوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی بھی پہلی پسند بنتی جار ہی ہیں۔

ہندوستان سے زیادہ بیرون ہند میں ان کی لکھی کتابیں مقبول ہیں ۔ دنیا کے سارے ہی براعظموں میں ان کی لکھی کتابیں پہنچ چکی ہیں۔ مختلف کتابوں کی نمائش کے دوران اُن کے اسٹال (Goodword Books)پر لوگوں کے شوق و جستجو کو دیکھا جا سکتا ہے اور اگر ثانی اثنین خاں بذات خود موجود ہوں تو بڑی تعداد میں بچوں کے والدین آکر ان سے ملتے ہیں ، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کتابیں خرید کر ان سے آٹوگراف لیتے ہیں۔ کیوں کہ یہ والدین کی بھی ضرورت ہے ۔

awaz

والدین بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے اندر اعلیٰ اقدار اور اچھے اخلاق و کردارپیدا ہوں۔ جس طرح اُن کے مولاناوحیدالدین خاں والد نے بڑی عمر کے اہلِ علم کے لیے کتابیں لکھیں، ٹھیک اُسی طرح ثانی اثنین خاںنے بچوں کے لیے کثیر تعداد میں کتابیں لکھ کراپنے والد کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔

تصنیف و تالیف کے علاوہ ثانی اثنین خاں ٹیلی ویژن کی بھی کامیاب میزبانی کررہے ہیں۔ 2008ءسے انھوں نے مختلف ٹی وی چینلوں پراسلام فارکِڈز( Islam for kids) کے تحت اپنا پروگرام شروع کیا ہے۔ سادہ انداز اور واقعات کوحالاتِ حاضرہ سے جوڑتے ہوئے اپنی بات پیش کرنے کا بہترین ملکہ اُنھیں حاصل ہے۔

اُن کے ٹی وی پروگرام میں اسٹوری آف دی پرافٹ یوسف،اسٹوری آف دی پرافٹ موسیٰ اور اسٹوری آف دی پرافٹ محمد کافی مقبول ہوئے ہیں۔آج کل وہ ہر اتوارکو صبح نوبجے ای ٹی وی اُردو سے اپنا پروگرام پیش کرتے ہیں۔ یہ پروگرام اگرچہ بچوں کے لیے ہیں تاہم بڑی عمر کے اہلِ علم بھی اِسے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔

ادارہ گڈورڈ بُکس کا قیام

ابتداً ثانی اثنین خاں نے یکم مئی1992ءکو”مکتبہ الرسالہ“ کے نام سے ایک سنڑقائم کیا۔ اُس کے تحت انھوں نے مولانا وحیدالدین خاں کی اردو اور انگریزی کتابیں اور دیگر اہم اسکالرس کی انگریزی کتابیں شائع کرنی شروع کیں۔1996ءمیں اُنھوں نے مکتبہ الرسالہ کوگڈورڈبُکس (Goodword Books) کے ایک خوبصورت نام سے تبدیل کردیا۔

اِس ادارے سے ثانی اثنین خاں نے اپنی لکھی ہوئی کتابیں بھی شائع کرنی شروع کیں۔اب تک اِس ادارے سے1000 سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔اعلیٰ معیار اور دیدہ زیب طباعت گڈ ورڈ بُکس کی پہچان بن چکی ہے ۔اِس ادارے کا عالم اسلام میں ایک منفرد مقام ہے ۔

  بچوں کے مصنف

ثانی اثنین خاں نے کثرت سے بچوں کے لیے کتابیں لکھیں ہیں۔ اُنھوں نے1999 ءمیں بچوں کے لیے سب سے پہلی کتاب جو تیار کی اُس کانا م ہے: ٹیل میں اباوٹ حج(Tell Me About Hajj)۔ یہ کتاب توقع سے زیادہ کامیاب رہی اور عالم اسلام میں بہت پسند کی گئی۔ پہلی کتاب کی کامیابی سے اُنھیں کافی حوصلہ ملا ۔ اس کے بعد انھوں نے مسلسل کتابیں لکھنی شروع کردیں۔ تادم تحریر وہ 100سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں اور اب تک ان کی لکھی ہوئی کتابوں کے30 لاکھ سے زائد نسخے دنیا کے مختلف ملکوں میں فروخت ہوچکے ہیں ۔

اتنی بڑی تعداد میں خالص بچوں کے لیے کتابیں لکھنے پران کا نام لمکا بُک ریکارڈ(2007 ) میں بھی آچکا ہے ۔ اس کے علاوہ اُنھیں 2013ءمیں بچوں کے لیے لکھی گئی اُن کی انگریزی کتاب ”دی اسٹوری آف خدیجہ ؓ “پر  حکومت شارجہ کی جانب سے ” شارجہ چلڈرنس بُک ایوارڈ“ ملا۔ اردو روزنامہ انقلاب نئی دہلی 5 مئی 2013ء کے مطابق یہ ایوراڈ پندرہ ہزار درہم یعنی تقریباََ دو لاکھ ہندوستانی روپئے کے نقد انعام پر مشتمل تھا ۔ یہ ایوارڈ ہر سال بچوں کے اُن مصنفین کو دیا جاتا ہے جو تخلیقی صلاحیت کے حامل ہوں ۔

کتابیں ہماری دوست

یہ بات حتمی طورپر تسلیم کی جاتی ہے کہ کتابیں ہماری سب سے اچھی دوست ہوتی ہیں۔جوہمیں دُنیا میں ایک بہترین زندگی گزارنے کاصحیح ڈھنگ سکھاتی ہیں۔ زندگی گزارنے کے رہنما اصول ہم صرف ذاتی تجربے سے نہیں جان پاتے ہیں۔ لامحالہ اس کے لیے ہمیں کتابوں تک رسائی کرنی پڑتی ہے ۔ جہاں کتابوں کے ذریعہ ہمارے اندر اعلیٰ انسانی اقدار پیدا ہوتے ہیں وہیں ہماری رسائی ان اقدارتک ہوجاتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے شب وروز کس طرح معاشرہ میں رہ کرگزارنے ہیں۔

ہم اکثر یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے اندراچھے اخلاق پیداہوں، کیوں کہ اچھے اقدار اور اچھے اخلاق کے بغیر ہمارے بچے ایک بہتر شہری نہیں بن سکتے ۔اس لیے جب تک ہم اپنے بچوں کی ایام طفلی میں اچھی تربیت نہیں کریں گے،تب تک ان سے بہتر کرداراداکرنے کی امید نہیں کرسکتے۔