سری نگر: علیحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی سپردخاک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
سید علی شاہ گیلانی
سید علی شاہ گیلانی

 

 

سر ی نگر : آواز دی وائس

کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈر اور تحریک حریت کےبانی کہلانے والے سنیئر لیڈر سید علی شاہ گیلانی کا کل رات طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔انہیں  صبح ساڑھے چار بجے سخت سیکیورٹی میں سپرد خاک کردیا گیا۔

جیلانی 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ اس ماہ کے آخر میں 92 سال کے ہونے والے تھے۔ 

ان کی موت کے بعد ریاست میں سیکیورٹی سخت کردی گئی تھی۔

دوسری جانب حریت کانفرنس نے گیلانی کی تدفین پر بڑے اجتماع کی تیاری کرنی شروع کردی تھی۔ریاست کے مختلف علاقوں سے سری نگر کے لئے روٹ جاری کیا گیا تھا لیکن اہل خاندان نے ساڑھے چار بجے ہی ان کی تد فین کردی ۔ 

سید علی گیلانی 2003 میں علحیدگی پسند اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کے تاحیات چیئرمین منتخب ہوئے۔ جون 2020 میں انہوں نے اس اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔

طویل بیماری

وہ گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے، ڈیمینشیا میں مبتلا تھے۔ان کی حالت بہت نازک تھی۔انہیں سانس لینے میں مشکل ہورہی تھی۔کل رات ١٠:٣٥ بجے کے قریب انتقال کر گئے۔

سید علی گیلانی کچھ عرصے سے بیمار اور مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔

کشمیر میں سکیورٹی سخت

بدھ کی رات گئے سید علی گیلانی کی وفات کے بعد وادی کشمیر میں سکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔ سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر خاردار تاریں رکھ کر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔

کشمیر کے ایک سینیئر پولیس افسر وجے کمار نے کہا کہ وادی کشمیر میں انٹرنیٹ سروس کی معطلی سمیت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ حیدر پورہ میں علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر بھی سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

کچھ سینیئر حریت رہنماؤں کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے۔ سینیئر حریت رہنما مختار احمد وازہ کو جنوبی کشمیر کے اننت ناگ قصبے میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ جنازے کے بارے میں فوری طور پر کوئی تفصیلات معلوم نہیں ہوسکی۔ اس سے قبل اہل خانہ نے کہا تھا کہ انہیں حیدر پورہ میں سپرد خاک کیا جائے گا جو ان کی رہائش گاہ سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔

سید علی گیلانی کون ہیں؟

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے اور 1950 میں ان کے والدین نے پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور ہجرت کی۔

گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔۔

۔ 1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے 12 سال تک وہ کشمیر کے مختلف سکولوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔

سیاسی زندگی کا آغاز 

انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی ہند سے کیا اور اس کے رکن بنے ۔

۔ 1953 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔

مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ کا عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہ اپنے گھر میں نظربند تھے۔ گیلانی کشمیر میں 15 سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔

وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں سوپور کے حلقے سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے۔

انہوں نے 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔ سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی میں مختلف مناصب بشمول امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قائم جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔

وہ 30 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ جماعت اسلامی کے بعد سید علی گیلانی نے تحریک حریت میں شمولیت اختیار کرلی۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں علحیدگی پسند جماعتوں کی ایک جماعت ’کل جماعتی حریت کانفرنس‘ کے ایک دھڑے کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، تاہم گذشتہ برس جون میں انہوں نے اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔

واضح رہے کہ حریت کانفرنس کے دو دھڑے ہیں۔ ایک دھڑا جو حریت کانفرنس (گ) کہلاتا ہے اس کی باگ ڈور سید علی گیلانی کے ہاتھوں میں تھی جبکہ دوسرا دھڑا جو حریت کانفرنس (ع) کہلاتا ہے، کی قیادت میرواعظ مولوی عمر فاروق کر رہے ہیں۔

 گیلانی عالمی مسلم فورم تنظیم رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی رہے۔ سید علی گیلانی کی ایک کتاب ’روداد قفس‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔ سید علی گیلانی اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔

 انہیں پاکستان کے 73 ویں یوم آزادی پر حکومت پاکستان کی جانب سے نشان پاکستان سے بھی نوازا گیا۔

 اظہار تعزیت

 کشمیر کی سابق وزیر اعلٰی محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’علی گیلانی صاحب کی وفات کا سن کر صدمہ ہوا۔ ہم بہت سی باتوں پر اتفاق نہیں کرتے تھے، لیکن میں ان کی ثابت قدمی اور اپنے عقائد پر کھڑے رہنے پر ان کی عزت کرتی ہوں۔ اللہ تعالٰی انہیں جنت میں جگہ دے۔

دوسری جانب پاکستان نے اس پر اپنی سیاست شروع کردی ہے۔ جہاں آج یون سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ان کی موت کو ایک بڑا نقصان بتایا ہے۔