سر سید ڈے : سرسید ہندو مسلم اتحاد کےعظیم چیمپئن تھے۔ ٹی ایس ٹھاکر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-10-2021
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یوم سرسید   کی تقریبات
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یوم سرسید کی تقریبات

 

 

علی گڑھ: تاریخ میں بہت کم افراد نے اندھی قدامت پسندی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور لوگوں کو اس طرح سے روشن خیالی اور جدید رویے اپنانے کی ترغیب دی ہے جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے بانی سر سید احمد خان نے کیا، جنھیں 17/اکتوبر کو آن لائن سرسید ڈے تقریب میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پوری دنیا سے علیگ برادری کے لوگ، اساتذہ،اسکالرز اور طلبہ شامل ہوئے۔

آن لائن یوم سرسید تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک جناب تیرتھ سنگھ ٹھاکر (سابق چیف جسٹس آف انڈیا) نے اپنے خطاب میں کہا: ”سرسید کا سول سوسائٹی کا وِژن، انیسویں صدی میں ہندوستانیوں کو درپیش مسائل و مشکلات کے بارے میں عملی شعور پیدا کرنے کی ان کی مسلسل کوششیں، ان کی سیکولرفکر اور نوآبادیاتی جدیدیت کے برعکس دیسی جدیدیت کا اس کا ماڈل، آج کے دور کی مابعد جدید دنیا میں ان کی معنویت کو ثابت کرتے ہیں“۔

سابق چیف جسٹس نے کہا ”ایک ایسے وقت میں جب مختلف ممالک ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہیں جن سے لاکھوں افراد ہلاک ہو سکتے ہیں اور ماحولیات کو اور آنے والی نسلوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، سرسید کا پرامن بقائے باہمی کا پیغام آج پہلے سے کہیں زیادہ موزوں ہے“۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو مثبت تنوع کی کہانیاں اور سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کی مثال پیش کرتا ہے جس کا اعتراف وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے بھی کیا جب انھوں نے اے ایم یو کو ’چھوٹا ہندوستان‘ کہا۔

 تیرتھ سنگھ ٹھاکر نے کہا ”سرسید ہندو مسلم اتحاد کے عظیم چیمپئن تھے۔ 27 جنوری 1884 کو گورداسپور میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا: اے ہندؤو اور مسلمانو! کیا تم ہندوستان کے علاوہ کسی اور ملک سے تعلق رکھتے ہو؟ کیا تم اِس سرزمین پر نہیں رہتے اور کیا تم اس مٹی کے نیچے دفن نہیں ہوتے یا اس کے گھاٹوں پر آخری رسومات نہیں ادا کرتے؟ اگر تم اس سرزمین پر رہتے اور فوت ہوتے ہو تو یہ ذہن نشیں کرلو کہ ’ہندو‘ اور ’مسلمان‘ صرف ایک مذہبی لفظ ہے: اس ملک میں رہنے والے تمام ہندو، مسلمان اور عیسائی ایک قوم ہیں“۔

جناب ٹھاکر نے کہا کہ سرسید کے سیکولرزم اور شمولیت کے نظریات کا عکس اے ایم یو کے طور و طریق میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا ”رامائن، گیتا اور دیگر صحیفوں کے کچھ بہت ہی نایاب اور قدیم تراجم اے ایم یو میں محفوظ ہیں اور ملک و دنیا سے سبھی مذہبی عقائد کے طلبہ و طالبات اے ایم یو کا رخ کرتے ہیں“۔

سر سید کی کثیر الجہات شخصیت کو یاد کرتے ہوئے جناب تیرتھ سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ سرسید کو ہندو اور مسلمان دونوں یکساں عقیدت سے یاد کرتے ہیں، چنانچہ جگر مرادآبادی کا یہ شعر یاد آتا ہے: ’جان کر منجملہ خاصانِ میخانہ مجھے، مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے۔ سابق چیف جسٹس نے کہا ”سرسید کا خیال تھا کہ جدید تعلیم میں سبھی بیماریوں کا علاج ہے اور انھوں نے جہالت کو تمام آزمائشوں اور فتنوں کی ماں قرار دیا اور اصلاحات لانے کے لئے انھوں نے 1864 میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی، 1866 میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ شروع کیا، 1870 میں تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا اور بالآخر 1877 میں ایم اے او کالج قائم کیا جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا۔ انھوں نے کہا ”جدید نقطہ نظر اور سائنسی فکر کے ساتھ سر سید نے ہندوستانیوں کی تقدیر بدلنے کے لئے ایک تاریخ رقم کی۔

ان کا تعلیم کا تصور سبھی کو شامل کرنے والا تھا اور وہ پختہ یقین رکھتے تھے کہ ہندوستانی بااختیار بننے کی راہ پراس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے نہیں بناتے“۔ انہوں نے مزید کہا: ”یہ دن خود کو دریافت کرنے، اپنا جائزہ لینے اور ان اقدار کے لئے خود کو دوبارہ وقف کرنے کا ہے جن سے ہندوستان عبارت ہے۔ یہ چیز باعث اطمینان ہے کہ سرسید کی زندہ یاد، ان کا قائم کردہ ادارہ ان کی توقعات پر پورا اتر رہا ہے اور میں اس موقع پر وائس چانسلر، فیکلٹی ممبران اور موجودہ و سابق طلبہ کو ان کی قابل قدر خدمات کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں“۔

تقریب کے مہمان اعزازی پرنس ڈاکٹر قائد جوہر عز الدین (چیئرمین، سیفی اسپتال ٹرسٹ اور سیفی برہانی اپلفمنٹ ٹرسٹ) نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی روایت کے مطابق خدا نے سب سے پہلے جو چیز بنائی وہ قلم تھی اور پھر اس نے سبھی اشیاء کی قسمت لکھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا ”قلم عقل اور علم کے ماحصل کی نمائندگی کرتا ہے، خدا نے اسے دیا اور ہمیں تحریر اور علم کی طاقت حاصل کرنی چاہئے“۔

انھوں نے اے ایم یو کے طلبہ سے کہاکہ وہ اختراعی افکار و خیالات سے اپنی قسمت لکھیں۔ مہمان اعزازی نے کہاکہ قسمت کو اپنی خواہش و امنگ کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اپنی قسمت کیسے بنائیں؟ اس کے لئے خواب دیکھنا ہوگا، منصوبہ بندی کرنا ہوگا، عمل کرناہوگا اور اپنا وِژن بنانا ہوگا۔ سماج میں ایک مقام پیدا کرنے کے لئے فکر و عمل کو اپنا وطیرہ بنائیں۔ انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ وہ عزم و حوصلہ سے کام لیں، اپنے اوپر یقین رکھیں، علم حاصل کرکے بڑے خواب دیکھیں اور اپنے اہداف کے حصول کے لئے اضافی کوششیں کریں۔

پرنس ڈاکٹر قائد جوہر نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین اے ایم یو کے طلبہ، اساتذہ اور یونیورسٹی کمیونٹی کی صحت و سلامتی کے لئے دعا گو رہتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ہم سب سر سید احمد خان کے خوابوں کی تکمیل کے لئے مسلسل کام کرتے رہیں گے۔

اے ایم یو کے خازن پدم شری پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کو ورچوئل طریقہ سے یادگاری نشانات پیش کئے۔ خطبہ استقبالیہ میں پیش کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا: ”سر سید کی شخصیت کا احاطہ چند الفاظ میں کرنا مشکل ہے، ایک کثیر الجہات شخصیت نے اپنی خدمات سے 19 ویں صدی کے دوسرے نصف میں تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ وہ دور بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ جنگ آزادی کو کچل دیا گیا تھا، عہد وسطی کا جاگیردارانہ نظام منہدم ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی معاشی نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ اس دوران، سر سید نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں، جامع علم، واضح فکر اور دور اندیشی کے ساتھ ملک کے لوگوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور ان کی قیادت کی“۔

وائس چانسلر نے کہا ”سرسید کے ایجنڈے میں تعلیم کو اولیت حاصل تھی۔ 26 مئی 1883 کو پٹنہ میں کی گئی اپنی تقریر میں سر سید نے یہ کہتے ہوئے اپنی فکر کا خلاصہ پیش کیا کہ ’یہ دنیا کی تمام قوموں اور عظیم رہنماؤں کا دوٹوک فیصلہ ہے کہ قومی ترقی کا انحصار لوگوں کی تعلیم و تربیت پر ہے۔چنانچہ اگر ہم اپنی قوم کی خوشحالی اور ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے لوگوں کو سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم دینے کی خاطر ایک قومی نظام تعلیم کے لئے کوشش کرنی چاہئے“۔

پروفیسر منصور نے زور دیتے ہوئے کہا، ”جدید تعلیم کے لئے سر سید کی وکالت میں مساوات، تعقل پسندی اور اصلاحات کو خاص جگہ حاصل تھی۔ ایم اے او کالج جو اے ایم یو کی خشت اوّل ہے، اس کی بنیاد میں مساوات کا تصور شامل تھا اور آج بھی اے ایم یو مساوات اور اعتدال و توازن کا مظہر ہے۔ اس کے دروازے ذات رنگ و عقیدہ سے بالا تر ہوکر سب کے لئے کھلے ہیں“۔ پروفیسر منصور نے کہا ”سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور سائنسی رویہ اور سیکولر نقطہ نظر کو پروان چڑھانے کے لئے علی گڑھ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کا آغاز کیا۔

ان رسائل میں شائع ہونے والی تحریروں نے کئی غلط فہمیوں، توہمات اور تعصب کا قلع قمع کیا جس نے لوگوں کے ذہنوں کو گھیر رکھا تھا۔ موجودہ منظرنامے میں سرسید کا عملی نقطہ نظر، تجدید نو کا جذبہ اور مذہب کو سمجھنے کا ایک نیا ذہن وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے آغاز سے ہی اے ایم یو مسلسل ترقی کر رہا ہے اور یہ فخر کی بات ہے کہ یونیورسٹی آج مختلف رینکنگ ایجنسیوں کے ذریعہ ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شامل کی جاتی ہے۔ وائس چانسلر نے کہا ”پچھلے کچھ سالوں میں ریکارڈ تعداد میں نئے کورس شروع ہوئے ہیں جن میں فوڈ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشیئل انٹلی جنس میں دو نئے بی ٹیک کورسز، ڈاٹا سائنس، سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل فارنسک سائنس میں ماسٹر پروگرام شامل ہیں۔

ہم نے بی ایس سی نرسنگ، بی ایس سی پیرامیڈیکل سائنسز، ڈی ایم کارڈیالوجی اور یونانی میڈیسن کے چار موضوعات میں ایم ڈی، ایم اے (اسٹریٹجک اسٹڈیز) اور ایم سی ایچ (نیورو سرجری) کی شروعات کی ہے۔ اس کے علاوہ ایم بی بی ایس کی نشستوں کی تعداد جلد ہی 150 سے بڑھ کر 200 کر دی جائے گی“۔ پروفیسر منصور نے مزید کہا کہ کووڈ وبا کے باوجود دو نئے کالج اور تین سنٹر قائم کیے گئے ہیں۔وہ ہیں: کالج آف نرسنگ، کالج آف پیرامیڈیکل سائنسز، ڈپارٹمنٹ آف کارڈیالوجی اور سنٹرز آف فوڈ ٹکنالوجی، آرٹیفیشیئل انٹلی جنس اور گرین اینڈ رنیویبل انرجی۔

انھوں نے کہا کہ جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کے میڈیکل انفراسٹرکچر کو متوقع تیسری کووڈ لہر کے پیش نظر اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر مہمان خصوصی سابق چیف جسٹس آف انڈیا جناب تیرتھ سنگھ ٹھاکر نے نامور برطانوی مورخ اور لندن یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا کی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر فرانسس کرسٹوفر رولینڈ رابنسن اور ہندوستانی ادیب و نقاد پدم بھوشن اور ساہتیہ اکادمی کے سابق صدر پروفیسر گوپی چند نارنگ کو بالترتیب بین الاقوامی اور قومی زمروں میں سر سید ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔ پروفیسر فرانسس رابنسن کو توصیفی سند اور دو لاکھ روپے کا نقد انعام جبکہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کو توصیفی سند اور ایک لاکھ روپے کا نقد انعام دیا گیا۔ بین الاقوامی زمرے میں سر سید ایکسیلنس ایوارڈ حاصل کرتے ہوئے پروفیسر فرانسس رابنسن نے کہا کہ اے ایم یو سے سر سید انٹرنیشنل ایکسیلنس ایوارڈ 2021 حاصل کرنا بہت بڑا اعزاز ہے جو مسلمانوں کا ایک عظیم ادارہ ہے اور جس کی تاریخ وہ پچاس برسوں سے پڑھتے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ”میرے لئے باعث اطمینان ہے کہ آپ نے میری تحقیق کو پڑھا، سمجھا اور اس کی قدر کی ہے۔ یہ اعزاز سرسید احمد خان کے نام پر ہے جس سے اس اعزاز میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ میں نے طویل عرصے سے سرسید کی قیادت، ہمت اور عزم کے لئے انھیں بہت سراہا ہے“۔ ایک مؤرخ کی حیثیت سے اپنی تحقیق و تصنیفات پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر فرانسس رابنسن نے کہا: ”میں نے اس پہلو سے تحقیق کی کہ ایک مختلف جگہ پر اور مختلف دور میں ہونے کا کیا مطلب ہے، اس دوران ہمیشہ ان لوگوں کا احترام کیا جنھیں میں پڑھتا رہا ہوں“۔

انھوں نے کہا ”میں نے اترپردیش کے مسلمانوں کے تناظر میں اِن امور کا مطالعہ کیا: مسلم سیاست کا ظہور، انیسویں صدی سے پرنٹ کی وسعت اور مذہب و سیاست پر اس کے بڑے اثرات، مذہبی تبدیلی کے پہلو،’پروٹسٹنٹ‘ اسلام کی مختلف شکلوں کا ظہور، مذہبی تبدیلی اور جدیدیت کی شکلوں کی نشو و نما، مثال کے طور پر، انفرادیت اور علماء کی دنیا“۔ ایوارڈ کے لئے وائس چانسلر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پروفیسر فرانسس رابنسن نے کہا کہ اس اعزاز سے جس تحقیق کو شناخت دی گئی وہ جزوی طور سے میری ہے اور یوپی کے مسلمانوں کی بھی ہے، جن میں سے بہت سے لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔

قومی زمرے میں سرسید ایکسیلنس ایوارڈ حاصل کرنے والے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ”سر سید، دہلی کے شریف گھرانے میں پیدا ہوئے، مغلیہ زوال اور برطانوی عروج کے گواہ رہے، شہر کے ثقافتی خمیر کے اثرات قبول کرتے ہوئے بڑے ہوئے، لیکن انھوں نے تعلیم کے ذریعے اصلاحات لانے کا بیڑہ اٹھایا اور اس کے لئے اپنی زندگی وقف کردی“۔

پروفیسر نارنگ نے کہا، ”سرسید ہندوستانیوں کے لئے جدید سائنس کو اپنانے کے خواہاں تھے اور 1869-70 میں انگلینڈ کے سفر پر آکسفورڈ اور کیمبرج کے دوروں نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے اسی ماڈل پر اپنے وطن میں ایک ادارہ قائم کرنے کے بارے میں سوچ لیا“۔

انہوں نے مزید کہا کہ سرسید نے ایک بہت مشہور بات کہی ”ہندوستان ایک خوبصورت دلہن ہے اور ہندو اور مسلمان اس کی دو آنکھیں ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کھو جائے تو یہ خوبصورت دلہن بدصورت ہو جائے گی“۔ پروفیسر نارنگ نے کہا ”سرسید کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی اور انہوں نے ایم اے او کالج کے دروازے تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے کھلے رکھے۔ انہوں نے ہمیشہ کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کی ثقافت کو اپنایا ہے“۔

اس موقع پر ممتاز ریاضی دان، شعبہ ریاضی، اے ایم یو کے پروفیسر قمر الحسن انصاری کو ریاضی میں شاندار کارناموں کے لئے سائنس کے زمرے میں ممتاز ریسرچر کا ایوارڈ 2021 دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد زین خان (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ کیمسٹری) اور ڈاکٹر محمد طارق (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ) نے سائنس کے زمرے میں مشترکہ طور سے ’ینگ ریسرچرز ایوارڈ‘ حاصل کیا، جب کہ ڈاکٹر محمد ارشد باری (اسسٹنٹ پروفیسر، فزیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ) کو ہیومنٹیز اور سوشل سائنسز کے شعبے میں ینگ ریسرچرز ایوارڈ دیا گیا۔

اے ایم یو کے ایل ایل بی کے طالب علم رضا حیدر زیدی نے اے ایم یو کے رابطہ عامہ دفتر کے زیر اہتمام منعقدہ آل انڈیا مضمون نویسی مقابلہ بعنوان ”سرسید بطور بین المذاہب ڈائیلاگ کے نقیب“ میں اوّل انعام حاصل کیا۔ انہوں نے اس ایوارڈ کے ساتھ 25 ہزار روپے کا نقد انعام جیتا۔ راجب شیخ (بی اے، دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی، ڈبلیو بی کیمپس، بیربھوم، مغربی بنگال) نے 15 ہزار روپے کے نقد انعام کے ساتھ دوئم انعام اور ابراہیم ہادی (ایم اے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے 10 ہزار روپے پر مشتمل سوئم انعام حاصل کیا۔مختلف ریاستوں کی نمائندگی کرنے والے آٹھ دیگر شرکاء کو پانچ ہزار روپے کی انعامی رقم کے ساتھ اسٹیٹ ٹاپر ایوارڈز دیئے گئے، جبکہ دو ریاستوں کے دو شرکا ء کو مشترکہ انعامی رقم کے ساتھ مشترکہ طور پر اسٹیٹ ٹاپر انعام دیا گیا۔

ریاستی ٹاپرز میں محمد یاسر جمال قدوائی (بی ایس سی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، یو پی)، انربان نندا (پی ایچ ڈی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بمبئی، مہاراشٹر)، شرینجے روپ سربدھکاری (بی ایس سی، مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی آف ٹکنالوجی، سمہٹ، نادیہ، مغربی بنگال)، مریم مقصود (پی ایچ ڈی، کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹکنالوجی، جموں و کشمیر) اور شاداب عالم (بی یو ایم ایس، آیورویدک اور یونانی طبیہ کالج، قرول باغ، نئی دہلی) شامل ہیں۔ دیا آمنہ (بی اے، پی ایس ایم او کالج، تیرورنگڈی، ملاپورم، کیرالہ) اور محمد عاشر (بی اے، جامعہ مدینہ، تھنور مرکز گارڈن، کیرالہ) نے ریاست کیرالہ سے انعام حاصل کیا، جبکہ چناسامودرم چننا کیساوولو اور میدکورو پوجا (انامچاریہ کالج آف فارمیسی،راجم پیٹ، کڈپا سے ڈہ فارما کے طالب علم) نے آندھرا پردیش سے مشترکہ انعام حاصل کیا۔ فیکلٹی ممبران، پروفیسر نازیہ حسن (شعبہ انگریزی) اور پروفیسر محمد ظفر محفوظ نعمانی (شعبہ قانون) اور طلبہ میں سدرہ نور (بی اے، انگلش) اور یاسر علی خان (پی ایچ ڈی) نے سر سید احمد خان کی تعلیمات، فلسفہ، خدمات اور مشن پر تقاریر کیں۔ پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن (یونیورسٹی خازن)، مسٹر مجیب اللہ زبیری (کنٹرولر امتحانات)، پروفیسر محمد محسن خان (فنانس آفیسر)، پروفیسر محمد وسیم علی (پراکٹر)، مسٹر ایس ایم سرور اطہر (کارگزار رجسٹرار) اور دیگر معززین نے آن لائن تقریب میں شرکت کی۔

پروفیسر مجاہد بیگ (ڈین اسٹوڈنٹس ویلفیئر) نے اظہار تشکر کیا جبکہ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر فائزہ عباسی اور ڈاکٹر شارق عقیل نے مشترکہ طور سے کی۔ اس موقع پر دو کتابوں: صد سالہ اشاعت ”اے ہسٹری آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (1920-2020)“ اور ہما خلیل کی کتاب ”دَ الیور آف علی گڑھ: اے پوئیٹک جرنی اِنٹو یونیورسٹی جرنی“ کا اجراء عمل میں آیا۔

ٹائمز آف انڈیا سے شائع شدہ ’اے ہسٹری آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کے ایڈیٹر پروفیسر عاصم، ڈاکٹر راحت ابرار اور ڈاکٹر فائزہ عباسی ہیں۔ اس سے قبل یونیورسٹی جامع مسجد میں نماز فجر کے بعد قرآن خوانی ہوئی، اور وائس چانسلر پروفیسر منصور نے یونیورسٹی کے اساتذہ اور اہلکاروں کے ہمراہ سر سید علیہ الرحمہ کی مزار پر پھولوں کی چادر پیش کی۔

وائس چانسلر نے سر سید ہاؤس میں سر سید احمد خان سے متعلق ’کتابوں اور تصاویر کی آن لائن نمائش‘ کا بھی افتتاح کیا، جس کا انعقاد مشترکہ طورسے مولانا آزاد لائبریری اور سر سید اکیڈمی کے زیر اہتمام کیا گیا۔