صابر حسین/نئی دہلی
یہ سنہ 1990 کے دہائی کے وسط کی بات ہے۔ اس وقت پرانی دہلی میں دو نوعمر بھائیوں کو ایک زخمی چیل (Kite)ملی تھی۔ یہ چیل پتنگ کے مانجھے میں الجھ کرزخمی ہوگئی تھی۔ وہ فوراً اسے چاندنی چوک میں واقع پرندوں کے ایک اسپتال میں لے گئے۔ مگر حیرت کی بات ہوئی کہ اسپتال والوں نے اس چیل کا علاج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ ایک گوشت خور پرندہ تھا۔
اس وقت وہ دونوں بھائی زخمی چیل کا علاج نہ کروا سکے۔ یہ اتفاق نہیں تو اور کیا ہے کہ ان دونوں بھائیوں کوسنہ 2003 میں دوبارہ ایک زخمی چیل کےعلاج کا موقع ملا۔ جس کاپیر فریکچر ہوگیا تھا۔ دونوں بھائی اس کی مدد کرنے کے لیے بے چین ہوگئے۔ ان کی منشا یہی تھی کہ چیل ٹھیک ہوکر دوبارہ آسمان میں اڑنے لگے۔ مگر وہ چیل دوبارہ اڑنےکے قابل نہ ہوسکی اور زندگی بھر ان کے ساتھ رہی۔
بالآخر دونوں بھائیوں یعنی ندیم شہزاد اور محمد سعود نے اپنے گھر کو ہی پرندوں کی پناہ گاہ بنا دیا یعنی انہوں نے اپنے گھر میں ہی زخمی پرندوں کا علاج شروع کردیا۔
شہزاد اور سعود صابن کا کاروبار کرتے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں زخمی پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے وہ لوگ ذاتی طور پر خرچ کرتے تھے۔ اس کے بعد 2010 میں انہوں نے زخمی پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے وائلڈ لائف ریسکیو (Wildlife Rescue ) کے نام سے ایک این جی او قائم کرلی۔
کچھ دنوں میں ان کو اسی خدمت کے سبب شہرت مل گئی،جب کہیں کوئی زخمی پرندہ کسی کو ملتا وہ اس کو لے کر ان کے پاس آ جاتا ہے۔وہ دونوں اس کا علاج کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ شہزاد اور سعود کے پاس اب ان کے کام میں مدد کے لیے ایک ویٹرنری ڈاکٹر جئے پرکاش پانڈے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ تین دیگر افراد ان کے این جی میں معاون ہیں۔
شہزاد نے آواز دی وائس کو بتایا کہ 2013 میں پرندوں کے علاج معالجے کے لیے نئی دہلی کے وزیر آباد میں ایک نئی جگہ کرائے پر لی گئی ہے۔ اسی علاقے میں ان کے بھائی سعود بھی رہتے ہیں۔ ان کا کلینک اور دفتر دونوں ابھی تک کرائے کی جگہ پر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جو زخمی پرندے ان کے پاس آتے ہیں، ان میں زیادہ تر چیلیں ہیں۔ اس کے لیے علاوہ الّو، گدھ اور آبی پرندے جیسے ایگریٹس اور سارس بھی علاج کے لیے لائے جاتے ہیں۔
پرندوں کا ہو رہا ہےعلاج
انہوں نے کہا کہ وہیں افزائش کے موسم میں بہت سے بچے پرندوں کو لایا جاتا ہے جو اپنے گھونسلوں سے گر جاتے ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر گوشت خور ہیں، اس لیے انہیں چکن اور دیگر گوشت کھلایا جاتا ہے۔ کچھ پرندوں کے علاج پر بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ یہ پرندوں کی تعداد پر منحصر ہے۔
عام طور ماہانہ اخراجات 1.5 لاکھ روپے تک ہوتے ہیں۔ اسی برس 2022 میں ہمیں غیر ملکی عطیات کے لیے ایف سی آر اے(FCRA) کی منظوری بھی ملی ہے۔ ہم عطیات کے سہارے ہی یہ این جی او چلا رہے ہیں۔ لیکن کوویڈ اور لاک ڈاؤن کے بعد عطیات میں کافی کمی آئی ہے اور ہم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔
زخمی پرندوں کی صحت یابی کی شرح کے بارے میں کیا خیال ہے؟
شہزاد نے کہا کہ جب ہم نے کام شروع کیا تو صرف 20 فیصد ہی پرندے ٹھیک ہوتے تھے۔ اس کے بعد 50 فیصد سے زائد پرندے کو صحت یاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اب 80 فیصد رکوری ریٹ کا ہدف لے کر چل رہے ہیں۔ ان پرندوں میں صحت یابی کی شرح زیادہ ہوتی ہے جو جوان ہوتے ہیں اور شدید بیمار نہیں ہوتے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ زخمی پرندوں کے علاج میں وقت بھی ایک اہم عنصر ہے۔ یہ انسانوں کے لیے گولڈن آور کہلانے والے وقت کے مترادف ہے جب اسٹوک یا ہارٹ اٹیک کی بات آتی ہے۔ زخمی پرندے کے علاج میں تاخیر کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دوبارہ اڑنے کے قابل نہ رہیں۔ جو پرندے شدید زخمی یا بیمار ہوتے ہیں ان کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔
ایک پرندہ جو اپنی چوٹ سے صحت یاب ہو چکا ہو، اسے 10 فٹ تک آسانی سے اڑتے ہوئے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد دونوں بھائی اسے چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
پرندے ریسکیو سنٹر میں
شہزاد نے کہا کہ صحت یاب ہونے والا پرندہ اڑ سکتا ہے لیکن اگر اسے کھانے اور پانی کے لیے واپس آنا ہو تو ہم دیوار کا کچھ حصہ 24 گھنٹے کھلا رکھتے ہیں۔ کچھ پرندے اچھی ہوا کے لیے چلے جاتے ہیں جب کہ کچھ واپس آتے رہتے ہیں ۔
وزیرآباد وائلڈ لائف ریسکیو(Wazirabad Wildlife Rescue ) اب نہ صرف عام شہریوں بلکہ قومی دارالحکومت کے مختلف پرندوں کے اسپتالوں سے بھی زخمی پرندے حاصل کرتا ہے۔ ان میں پتنگ کے مانجھے کی وجہ سے زخمی ہونے والے پرندوں کا تعداد زیادہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دہلی میں پتنگ بازی سال بھر کا معاملہ ہے۔ یہ یوم آزادی کے آس پاس کافی حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان دنوں ہمارے مرکز میں لائے جانے والے زخمی پرندوں کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
شہزاد ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ملک میں پرندوں کے علاج پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ بڑے جانور جیسے پالتو جانوریا مویشیوں کو ترجیح ملتی ہے کیوں کہ ان سے معاش بھی جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی زیادہ قدر ہوتی ہےلیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پرندوں پر توجہ نہیں جاتی ہے، حالاںکہ یہ بھی ماحولیات کے لیے بے حد مفید ہیں۔
فی الوقت ریسکیو سینٹر میں تقریباً 100 پرندے ہیں لیکن شام تک یہ تعداد اکثر بڑھ جاتی ہے کیونکہ چھوڑے گئے پرندے بھی کھانے اور پانی کی تلاش میں یہاں واپس لوٹ آتے ہیں۔