آواز دی وائس / نئی دہلی
پانچ اگست کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی چھ سال مکمل ہورہے ہیں،۔ یہ فیصلہ سال 2019 میں مرکزی حکومت نے کیا تھا، جس کے تحت جموں و کشمیر کے خصوصی ریاستی درجے کو ختم کر کے اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں – جموں و کشمیر اور لداخ -میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
اس برسی سے ایک دن قبل، پیر کی شام مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی سیکیورٹی جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول، داخلہ سیکریٹری گووند موہن اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تپن ڈیکا بھی شریک ہوئے۔
یہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کمپلیکس میں وزیر داخلہ کے دفتر میں منعقد ہوا۔ ذرائع کے مطابق، اجلاس میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورت حال، خصوصاً جموں و کشمیر کی حساسیت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔
اجلاس کا ایک اہم ایجنڈا پانچ اگست کے موقع پر کسی بھی قسم کی بدامنی یا قانون شکنی کو روکنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا تھا، تاکہ یہ دن پرامن طریقے سے گزرے۔ دہشت گردی، تشدد اور دیگر سیکیورٹی خطرات پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔
یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے وقت مرکزی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد جموں و کشمیر کو دوبارہ مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے گا۔ تاہم تاحال اس ضمن میں کوئی واضح ٹائم لائن فراہم نہیں کی گئی ہے۔ وادی میں سیاسی استحکام اور تنظیم نو کے حوالے سے مسلسل بات چیت اور مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔
حال ہی میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جموں و کشمیر کو ریاستی درجہ واپس دینا عوام کا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت قانونی راستوں سمیت تمام پہلوؤں پر غور کر رہی ہے تاکہ ریاستی درجہ جلد بحال کیا جا سکے۔ ان کے مطابق، مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں بھی اس وعدے کو دہرایا تھا، جسے پورا کیا جانا چاہیے۔
متعدد سیاسی جماعتوں نے بھی اس معاملے پر آواز بلند کی ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مشترکہ خط لکھا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں جموں و کشمیر کو ریاستی درجہ دینے کے لیے بل پیش کیا جائے۔اسی سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سیکریٹری ڈی۔ راجا نے بھی وزیر اعظم کو خط لکھ کر ریاستی درجہ فوری بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول یہ مسئلہ صرف جموں و کشمیر کے عوام کا نہیں، بلکہ پورے ملک کے آئین اور وفاقی ڈھانچے سے جڑا ہوا ہے۔
جیسے جیسے پانچ اگست قریب آ رہا ہے، سیاسی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں اور عوام کی توقعات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ آئندہ اس حساس معاملے میں کیا سمت اختیار کی جائے گی۔
دوسری جانب، سیکیورٹی فورسز بھی مکمل طور پر چوکنا ہیں اور وادی میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح، آرٹیکل 370 کی منسوخی کی یہ برسی نہ صرف جموں و کشمیر کی سیاسی حساسیت کی یاد دہانی ہے، بلکہ آئندہ وہاں پائیدار امن اور آئینی حقوق کی بحالی کی امیدوں کو بھی تقویت دیتی ہے۔