نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جج جسٹس کے ونود چندرن نے پیر کے روز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی وائس چانسلر کے طور پر پروفیسر نائمہ خاتون کی تقرری کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا۔چیف جسٹس بی آر گوائی، جسٹس چندرن اور جسٹس این وی انجاریہ پر مشتمل بنچ اس اپیل کی سماعت کر رہا تھا جو مظفر عروج ربانی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کی تھی، جس میں پروفیسر خاتون کی تقرری کو برقرار رکھا گیا تھا۔ وہ یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جنہیں وائس چانسلر کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس چندرن نے اپنے ماضی کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے سے علیحدگی اختیار کر لیں گے کیونکہ وہ بھی ایک ایسی ہی تقرری کے عمل میں شامل رہے ہیں۔انہوں نے کہا: “میں سی این ایل یو (کنسورشیم آف نیشنل لا یونیورسٹی) کا چانسلر تھا جب میں نے فیضان مصطفیٰ کا انتخاب کیا تھا… اس لیے میں اس سماعت سے الگ ہو سکتا ہوں۔”اس پر سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا: “ہمیں جسٹس چندرن پر مکمل اعتماد ہے۔ آپ کو الگ ہونے کی ضرورت نہیں، آپ یہ فیصلہ بخوبی کر سکتے ہیں۔تاہم چیف جسٹس نے کہاکہ میرے بھائی (جسٹس چندرن) کو خود فیصلہ کرنے دیں۔ اس معاملے کو ایسی بنچ کے سامنے لسٹ کیا جائے جس میں جسٹس چندرن شامل نہ ہوں۔
اب یہ درخواست کسی اور بنچ کے سامنے سنی جائے گی۔ابتداء میں، درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے تقرری کے عمل کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ اگر وائس چانسلرز اسی طرح مقرر کیے جاتے ہیں تو مجھے فکر ہے کہ آگے جا کر کیا ہوگا۔ نتیجہ دو اہم ووٹوں کی وجہ سے تبدیل ہوا، جن میں ایک سبکدوش ہونے والے وائس چانسلر کا ووٹ بھی شامل تھا۔ اگر یہ دونوں ووٹ نکال دیے جائیں تو انہیں صرف چھ ووٹ ملتے۔
ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی نے ان دلائل کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ تقرری تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عمل جزوی انتخاب اور جزوی تقرری پر مشتمل ہے۔ ہائی کورٹ نے اگرچہ ہمارے انتخاب والے دلائل کو قبول نہیں کیا، لیکن اس نے ان کی تقرری کو برقرار رکھا۔ اور عرضی گزار نے دیگر تقرریوں مثلاً پرووسٹ کی تقرری کو کبھی چیلنج نہیں کیا۔”سالیسیٹر جنرل نے اعتراضات کو محض "اندیشوں پر مبنی" قرار دیا۔چیف جسٹس نے تاہم کہا کہ اصولی طور پر وائس چانسلر کو ووٹنگ میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا: “کولیجیئم کے فیصلوں میں بھی اگر ایسی صورتحال آتی ہے تو ہم خود کو الگ کر لیتے ہیں۔”