مغربی یوپی میں ساحل اسٹڈی پوائنٹ کے ذریعہ آ رہی تعلیم کی بہار

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-12-2021
مغربی یوپی میں ساحل اسٹڈی پوائنٹ کے ذریعہ آ رہی تعلیم کی بہار
مغربی یوپی میں ساحل اسٹڈی پوائنٹ کے ذریعہ آ رہی تعلیم کی بہار

 

 

انس محمد،نئی دہلی

 مغربی پوپی کے ضلع سنبھل کا علاقہ دیپا سرائے 2016 میں اس وقت سُرخیوں میں آیا، جب کہ القائدہ سے وابستہ دہشت گرد محمد آصف کی گرفتاری عمل میں آئی۔ وہیں آصف کا پڑوسی بدر جمال ساحل مختلف خواب بُننے میں مصروف تھا۔ ساحل، ان دنوں ریونیو سب انسپکٹر تھے اور ایک چھوٹا سا ٹیوشن سینٹر چلایا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے سینٹر میں اساتذہ اور والدین کی ملاقاتیں شروع کیں تاکہ طالب علم اور اس کے والدین دونوں کو معیاری تعلیم اور بچوں کے مستقبل اور کیریئر کے بارے میں مزید گفتگو کی جا سکے۔

پانچ سال بعد آصف تہار جیل میں انصاف کے انتظار میں زندگی گزار رہا ہے اور جب کہ ساحل کے اسٹڈی سنٹر نے کافی ترقی کر لی ہے۔ فی الوقت یہ اسٹڈی سنٹر شہرکے چار الگ الگ مقامات پر قائم ہو چکا ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طلباء ان کی طرف بڑی تعداد میں آ رہے ہیں-

awazurdu

 

اب ساحل کا کوچنگ سنٹر'ساحل اسٹڈی پوائنٹ' کہلاتا ہے، جس نے یونیورسٹی کے انٹرنس ٹیسٹ اورمسابقتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں ساحل اسٹڈی پوائنٹ سے30 طلبا وطالبات ہندوستانی فوج اورریاستی پولیس میں منتخب ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ اس اسٹڈی پوائنٹ کے23 طلبہ بیرون ملک کی مختلف نامور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔

 خیال رہے کہ اس اسٹڈی پوائنٹ میں بہت سی لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ اس کوچنگ سنٹر سے تربیت پانے والے طلبہ و طالبات جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، ایم جے پی روہیل کھنڈ یونیورسٹی اور دیگر اداروں جیسی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف اور ساحل دونوں جاگیردار اور مذہبی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم اب ان کی آبائی جائداد ختم ہوچکی ہے۔

بدر جمال ساحل نے آواز دی وائس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی کے بجائے میرے کام کو نمایاں کیا جائے۔

awazurdu

 

انہوں نے کہا کہ تعلیم نہ صرف طلبا کی زندگی میں تبدیلی میں آتی ہے بلکہ معاشرے میں بھی تبدیلی کا باعث  ہے۔اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 2016 میں جب ہم نے والدین کو اپنے سینٹر میں بلانا شروع کیا تو یہ شہر کے ٹیوشن سینٹرکے لیے ایک نئی بات تھی۔

کیوں کہ اس سے قبل کسی کوچنگ سنٹر میں والدین کو نہیں بلایا جاتا تھا- ان کا خیال ہے کہ بچے کی نشوونما کے لیے اساتذہ اور والدین دونوں ذمہ دار ہیں، اس لیے دونوں کا تعاون ضروری ہے۔ تاہم ہمارے قدامت پسند معاشرے میں اس تعلق سے کچھ ہچکچاہٹ پیدا ہوئی تاہم ہمارا اسٹڈی پوائنٹ کامیاب ہوا۔

ساحل کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی ہم نے ہر بچے کے لیے روزانہ مطالعہ کا منصوبہ بنایا اور اس کو ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ ان دنوں یہ چیز بھی سنبھل کے لیے بالکل نئی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ آہستہ آہستہ ان کے ٹیوشن کے طلباء نے اپنی کامیابی درج کرانی شروع کردی، اور وہ اپنے اسکولوں میں ٹاپر آنے لگے۔ انہوں نے مختلف یونیورسٹیوں کے داخلہ امتحانات کے لیے کوالیفائی کیا۔ ان کی کامیابی کی خبر دیپا سرائے کی حدوں کو پار کر گئی۔

جب اسٹڈی پوائنٹ شہر میں کافی ترقی کر گیا اور اس کے ذریعہ ساحل کا معاشی مسئلہ بھی حل ہونے لگا تو ساحل نے ریونیو سب انسپکٹر کی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ ہم سب ایک محفوظ سرکاری نوکری اور مقررہ کمائی کا خواب دیکھتے ہیں۔ مگر تعلیم کی وجہ سے میں نے اپنے خاندان اور دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اپنی سرکاری ملازمت ترک کردی۔

 ساحل کہتے ہیں کہ ساحل اسٹڈی پوائنٹ کے لیے تاریخی لمحہ اس وقت آیا جب کہ ان کے طلباء نے اسکالرشپ حاصل کرنی شروع کی اورغیرملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا اور باقاعدگی سے جے ایم آئی، اے ایم یو اور دیگر اداروں کے داخلہ ٹیسٹ کوالیفائی کرنا شروع کیا۔

ساحل نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ایس ایس پی(ساحل اسٹڈی پوائنٹ) نہ صرف شہر بلکہ آس پاس کے علاقوں کے کوچنگ حلقوں میں بحث کا موضوع بن گیا۔زیادہ تر لوگوں نے شہر کے دیگر حصوں میں اس کی شاخیں کھولنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ پھرایس ایس پی کے چار نئے مراکز قائم کئے گئے۔

awazurdu

۔سنہ 2018 تک ساحل اسٹڈی پوائنٹ میں چوگنی ترقی ہوگئی، اس کے بعد اس کی دوسری شاخ 'ساحل کیرئیر اکیڈمی' قائم کی گئی۔ جس کا خاص مقصد یو پی ایس سی اور دیگر مسابقتی امتحانات کے لیے طلباء کی تیاری کرانا ہے-

ساحل کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے طلباء کی رہنمائی کے لیے دہلی، بریلی، علی گڑھ، چندوسی اور بدایوں کے ماہر اساتذہ کو مدعو کیا۔

 انہوں نے کہا کہ خیال یہ بھی تھا کہ ایسے طالب علموں کو تربیت دی جائے جو مالی طور پر غیرمستحکم ہیں اور انہیں پش اپس(Push-Ups) کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی حمایت نے اتنا اچھا کام کیا کہ 30 ساحلیان (ایس ایس پی کے طلباء کے طور پر مشہور ہیں) نے ہندوستانی فوج اور ریاستی پولیس سروس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے اسکول ٹیچر بننے کے لیے ٹی ای ٹی امتحانات کے لیے کوالیفائی کیا۔

 ایس ایس پی کی کامیابی سنبھل میں گونجنے لگی اور اس نے تمام برادریوں اور طبقات کے اساتذہ اور طلباء کو اس سے جوڑ دیا، کئی بڑے اداروں نےاس کی ہمت افزائی کی۔

سری اروبندو سوسائٹی، کولکاتا نے ایس ایس پی کو اپنے سرٹیفیکیشن لیٹر سے نوازا۔ اسی طرح احساس فاؤنڈیشن نے بھی ایس ایس پی کو خطاب سے نوازا ہے۔ ساحل اور ایس ایس پی ٹیم کے اراکین کو بھی پورے علاقوں کے اسکولوں میں طلبا کو موٹویٹ (Motivate) کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے-

awazurdu

کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھی ایس ایس پی نے اپنے طلبہ کی تربیت کے لیے ایک آن لائن ماڈیول بھی تیارکیا اور ہر سال کی طرح اس کے کئی طلبہ نے اپنے اسکولوں میں ٹاپ کیا اور ان میں سے متعدد طلبا نے ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں جگہ بنائی۔

 دیپا سرائے کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ساحل سٹڈی پوائنٹ کی وجہ سے اس علاقے کو 'مبینہ دہشت گردی والا علاقہ' کی جگہ اسے تعلیمی مرکز لکھ رہے ہیں۔