رونا رفیق : سرکاری ملازمت ترک کر بنیں مثالی کاروباری خاتون

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
رونا رفیق : سرکاری ملازمت  ترک کر بنیں مثالی کاروباری خاتون
رونا رفیق : سرکاری ملازمت ترک کر بنیں مثالی کاروباری خاتون

 

 

  ڈاکٹر شیوانی سرما/گوہاٹی

 ریاست آسام کے ضلع ڈبروگرھ سے تعلق رکھنے والی لبرل مسلم خاتون رونا رفیق نے اپنے عزم و ہمت کی بدولت ایک نئی مثال پیش کی ہے.رونا رفیق اعلیٰ تعلیم خاتون ہیں۔ وہ دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ وہ ریاستی سطح پر بچوں و خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے چلنے والے ایک ادارے آپریشن اسمائل(Operation Smile) میں سینئر منیجر کے طور پر کام کر رہی تھیں، مگر انہوں نے اپنی اس سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ عام طور پر لوگ سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے مختلف قسم کی تگ و دو کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے ایک نیا کام کرنے کے لیے ملازمت ترک کردی۔ یہ ان کی ہمت اور خود اعتمادی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

رونا رفیق نے اپنے بھائی نجم رحمان ہزاریکا کے ساتھ جنوری 2019 میں ایک فرم (Blue Planet Amalgamated) قائم کی۔اس فرم کے تحت انہوں نے ایک پالٹری فارم سرائگھاٹ فارم(Saraighat Farm) کامروپ ضلع کے اتھیابوئی گاؤں میں قائم کیا۔ رونا رفیق کے شوہر راہل مہنتا آسام کی کاٹن یونیورسٹی میں فزکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کے شوہر ہر کام میں ان کا بہت زیادہ تعاون کرتے ہیں۔ رونا رفیق خود کہتی ہیں کہ اگر میرے شوہر کا تعاون نہ ہوتا تو میں یہ کام کبھی بھی شروع نہ کر پاتی۔

وہ خود کہتی ہیں کہ ایک کاروباری خاتون بننے کے لیے ان کے اہل خانہ اور خاص طور پر رفیق سفر کا تعاون بہت ضروری ہے۔ وہ اگرچہ مسلم ہیں مگر انہوں نے ایک اعلیٰ ذات کے ہندو خاندان کے ایک تعلیم یافتہ فرد سے شادی کی۔ان کی شادی ہم آہنگی اور بین المذاہب اتحاد کی عمدہ مثال ہے۔

 موجودہ دور میں جب ہندو اور مسلمانوں کے رشتے آپس میں لڑکھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں، آسام کی یہ خاتون تمام دقیانوسی تصورات کو رد کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ ایک جدید، متحرک اور ترقی پسند ہندوستانی مسلم خاتون کے طور پر سامنے آئی ہیں اور انہوں نے دقیانوسی تصورات کو بھی چیلنج کیا ہے۔

اگرچہ ان کی شناخت تخلیقی صلاحیت اور کاروباری ذہانت رکھنے والی خاتون کے طور پر ہی بنی ہے؛ تاہم وہ ان خواتین کی صف میں شامل ہوگئی ہیں جو ملک کے کاروباری منظرنامے کو بدل رہی ہیں۔

awazthevoice

رونا رفیق ایک پروگرام میں

رونا کہتی ہیں کہ اپنا کام یا کاروبار کرنے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آپ کو آزادی ملتی ہے۔ آپ بہتر اور تخلیقی ڈھنگ سے کام کرسکتے ہیں۔ یہ وہ آزادی ہے جو آپ کو امکانات کاجائزہ لینے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے ویکسینیشن اور ادویات کے سائنسی طریقے پر عمل کیا اور آہستہ آہستہ خود کو تکنیکی مہارتوں سے بھی آراستہ کیا۔

سنہ 2020 میں رونا رفیق نے اپنے کاروبار کو متنوع بنایا اورلائیو اسٹاک فارمنگ کی طرف بڑھی۔ انہوں نےجوکاروباری تجربات کئے ہیں وہ منفرد ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سرائیگھاٹ فارم کی جانب سے تازہ گوشت کی فراہمی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اینٹی بائیوٹک فری چکن جیسی اختراعی چیزیں بھی شروع کی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پیٹی بطخ (Pati duck) اور آسامی چکن وغیرہ پر بھی پروسیسنگ کر رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک نیا تصور ہے اور اس سے پہلے اس طرح کی کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔ وہیں وہ دھووا سانگ (DhowaSang) نامی گوشت کے برانڈ کی سپلائی بھی شروع کر چکی ہیں۔ خیال رہے کہ 'دھوا سانگ' بطخ، مچھلی اور چکن کے مشترکہ و شمال مشرقی ذائقہ فراہم کرتا ہے۔ اس طرح گویا انہوں نے شمال مشرقی ذائقہ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔

دراصل رونا رفیق شہر کے باشندوں اور علاقے سے باہر کے لوگوں کے لیے مستند شمال مشرقی ذائقے کو دستیاب کرانے کی کوشش کررہی ہیں۔ دھواسنگ کی سپلائی کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ چکن اینٹی بایوٹک سے پاک ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں اینٹی بائیوٹکس سے پاک چکن کا جدید خیال کیسے آیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے چکن میں اینٹی باڈیز کے مضر اثرات کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے۔ پولٹری میں ان کے استعمال سے پیدا ہونے والے مزاحم بیکٹیریا اہم تشویش کا باعث ہیں کیونکہ جو لوگ ان بیکٹیریا کو کھاتے ہیں، ان میں انفیکشن کے امکانا بڑھ جاتے ہیں۔

awazthevoice

رونا رفیق کا پولٹری فارم

یہ جاننے کے بعد میں اپنے بچوں کو ایسا گوشت کھانے نہیں دے سکتی تھی۔ صرف میرے بچوں کو ہی نہیں بلکہ ہر کسی کو اینٹی بائیوٹکس فری چکن کھانے کا اعزاز ملنا چاہیے۔ یہ کام کسی نہ کسی کو شروع کرنا ہی تھا۔ میں نے یہ کام شروع کردیا۔

اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے ایسے چکن کی پیداوار اور سپلائی شروع کی ہے۔ انہوں نے اپنے پولٹری فارم کے ذریعے دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت سی آسامی دیہی خواتین روایتی طور پر مرغیوں اور بطخوں کو اپنے اپنے علاقےمیں پالتی ہیں۔ اس پرانے رواج کو قائم رکھتے ہوئے رونا رفیق نے ان خواتین کے لیے ایک پائیدار ذریعہ معاش میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

 وہ بتاتی ہیں کہ یہ دراصل انہی دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کی طرف ایک چھوٹا سا قدم ہے۔ اس وقت انہوں نے 100 خواتین کسانوں کو اینٹی بائیوٹک مفت چکن تیار کرنے کی تربیت دی ہے۔ وہ فخر کے ساتھ کہتی ہیں کہ ایک عورت اور مسلمان کے طور پر میری شناخت باقی ہے۔ میں نے جن چیلنجوں کا سامنا کیا ہے، وہ عورت یا مسلم معاشرے کے لیے منفرد نہیں تھی۔ مجھے بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو ہر کاروباری کو سابقہ پیش آتا ہے۔ جس کی مجھے پہلے سے امید تھی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اسے اپنی جنس یا اس کے مذہب کی وجہ سے کبھی بھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اسے وہ آسامی معاشرے کی سیکولر فطرت سے منسوب کرتی ہیں۔

رونا کے درج ذیل مسائل ہیں:

• مارکیٹ بنانا

• کاروبار کو چلانا

• اس کو بڑھانا

• ویٹرنری کیئر تک محدود رسائی

• جانوروں کی بہبود میں مہارت کی کمی

رونا کا خیال ہے کہ اس خطے میں مویشی پالن کے بہترین مواقع موجود ہیں، بشرطیکہ صحیح ماحولیاتی نظام تشکیل دی جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت کو اس شعبے میں مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا، اگر دماغ میں کوئی بات آسکتی ہے تو اس کو پورا بھی کیا جاسکتا ہے۔

اس تصور کے ساتھ اگرچہ رونا رفیق نے اگرچہ اکیلے ہی اپنا سفر شروع کیا تھا، مگر اب بہت سی خواتین ان کے ساتھ وابستہ ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے ان خواتین کے معاشی مسائل بھی حل ہو رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رونا رفیق کے ارادے بہت مضبوط ہیں۔ وہ مزید دیہی خواتین کو بااختیاربنانے کے لیے فکر مند ہیں۔ وہیں وہ  بے روزگار نوجوانوں کے درمیان کاشتکاری اور مویشی پالن کو فروغ دینے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں۔

اپنے کاروبار کے ذریعے رونا رفیق شمال مشرقی ورثے کے ذائقوں کو بھی محفوظ رکھنے کی خواہش مند ہیں۔