کشمیر کےرِشی صوفی: جنہوں نے وادی کے ہر گھر تک روحانیت کا پیغام پہنچایا

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 12-05-2023
کشمیر کےرِشی صوفی: جنہوں نے وادی کے ہر گھر تک روحانیت کا پیغام پہنچایا
کشمیر کےرِشی صوفی: جنہوں نے وادی کے ہر گھر تک روحانیت کا پیغام پہنچایا

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

رِشی کا مطلب سنسکرت ادب میں محض ایک سنت یا سنیاسی ہے لیکن پندرہویں اور اٹھارویں صدیوں کے درمیان کشمیر کی تاریخ کے تناظر میں، یہ لفظ اسلام کے دائرے میں دیسی صوفیاء کی تحریک کی نشاندہی کرتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں،کا اسلام اور تصوف سے تعلق جن تحریکوں کے ذریعے ہوا اس میں رِشی سلسلہ کی خاص اہمیت ہے۔ ابتدا میں بہت سے صوفیہ، ایران اور سنٹرل ایشیا سے کشمیر آئے تھے مگر بعد میں خالص دیسی صوفیوں کا سلسلہ شروع ہوا،جسے رِشی سلسلہ کہا جانے لگا۔۔۔۔

اس سلسلے کا بانی حضرت نورالدین نورانی کو قرار دیا جاتا ہے جنہیں عرف عام میں نند رشی بھی کہا جاتاہے۔انہیں شیخ العالم اور علمدارکشمیر بھی کہتے ہیں۔ اصل میں رشی سلسلہ، نند رشی اور ان کے شاگردوں  کی تحریک بھی ہے۔ وہ لوگ اپنے وسیع پہاڑی علاقے کو 'رشیوں کی وادی' کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔

awaz

کشمیر،ہمیشہ سے رشیوں اور خدا کی عبادت میں مصروف رہنے والوں کا مسکن رہا ہے اور اسی وجہ سے اسے رشی واٹیکا کے نام سے جانا جاتا تھا۔آج بھی کشمیر کے بہت سے دیہاتوں، علاقوں اور پہاڑی چوٹیوں کے نام رشیوں کے وجود کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وادی کے کچھ جنگلات کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا ہے،لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ کشمیر میں تصوف کی آمد سے پہلے،تک رشی سماجی طور پر متحرک نہیں تھے، کیونکہ وہ غاروں میں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر تنہا زندگی گزارتے تھے۔

مقامی صوفی سلسلہ یعنی رِشی سلسلہ کے بانی کے طور پر نورالدین کے ابھرنے پر پہلی بار یہ ہوا کہ کشمیر میں رشی روایت کی سماجی اہمیت قائم ہوئی۔ ان کے اثر و رسوخ کے تحت، رشی ایک اہم سماجی قوت کے طور پر ابھرے۔ بڑی تعداد میں کشمیری لوک گیت، رشیوں کی تعریف میں ملتے ہیں، جن سے رشیوں کے سماجی کردار کی نشاندہی ہوتی ہے۔

سوال یہ بھی اٹھتے رہے ہیں کہ شیخ نورالدین نے اپنے سلسلہ کے لئے ایک ایسے لفظ کا انتخاب کیوں کیا جس سے عام مسلمان مانوس نہیں تھے؟ دوسرے الفاظ میں کہیں تو تمام صوفی سلسلوں کے نام عربی اور فارسی الفاظ میں ہیں مگر اس سلسلہ کو سنسکرت نام سے کیوں پکارا گیا؟ شاید اس کا سبب یہ تھا کہ یہ لفظ مقامی لوگوں کو زیادہ متوجہ کرسکتا تھا اور اس میں زیادہ اپنائیت تھی۔

رشی سلسلے نے بہت سے روحانیت کا ذوق رکھنے والوں کومتاثر کیا، جن میں مخدوم شیخ حمزہ رینہ، رشی میر صاحب، اور شمس فقیر شامل ہیں۔ شیخ نور الدین نورانی یعنی نند رشی 1377 میں ضلع کولگام کے گاؤں جوگی پورہ میں پیدا ہوئے اور ان کی قبرچرارے شریف میں ہے۔یہ وادی میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان اچھے تعلقات اور بھائی چارہ کے لئے کام کرتے تھے۔ وہ تمام انسانوں کو برابر سمجھتے تھے اور مذہب کے نام پر بھید بھائو کے خلاف تھے۔

انہوں نے وادی کی معروف صوفیہ اور شاعرہ للا عارفہ کا دودھ پیا تھا جنہیں للیشوری بھی کہتے ہیں۔ شیخ نورالدین نورانی نے 30 سال کی عمر میں دنیاوی زندگی کو خیرباد کہہ دیا اور ایک غار میں عبادت کرنے لگےتھے۔زندگی کا باقی حصہ یہیں گزارااور آنے جانے والے لوگوں کے درمیان محبت ویگانگت کا پیغام عام کرتے رہے۔ نند رشی اچھے شاعر تھے اور کشمیری زبان میں شاعری کیا کرتے تھے۔ ایک اور کشمیری صوفی بزرگ بابانصیب الدین غازی نے ان کی زندگی پر ایک کتاب رِشی نامہ لکھی ہے، اس کتاب کو نورنامہ بھی کہتے ہیں۔

۔ 17ویں صدی کے شاعر وصوفی بابا نصیب نے رشی سلسلہ کے اثرات کے بارے میں لکھا ہے کہ مذہب کی شمع رشیوں سے جلتی ہے، وہ عقیدہ کی راہ کے علمبردار ہیں۔ رشیوں کے دلوں کی پاکیزگی، کشمیر کی یہ وادی، جسے آپ جنت کہتے ہیں، اس کی بہت زیادہ دلکشی ان روایات کی مرہون منت ہے جو رشیوں نے رائج کی ہیں۔۔۔۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت نند رشی اوردوسرے رشیوں نے مجاہدہ اور ریاضت بہت زیادہ کیا اور ہندو سنیاسیوں سے دور نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے نظریات کو ہندو اور بدھ مت کی طرز پر بھی پروان چڑھایا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مقامی آبادی سے رابطہ میں آسانی ہوئی اور یہ عوام وخواص تک اپنی باتیں پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا سماجی رویہ، وسط ایشیا اور فارس کے صوفیہ سے بھی کچھ حد تک الگ تھا۔ ایران اور سنٹرل ایشیا سے کشمیر آنے والے صوفیوں میں شدت پسندی تھی جب کہ رشیوں نے، بقائے باہمی کےاصول کو نظر میں رکھا جو اس خطے کی صدیوں سے ضرورت رہا ہے۔

awaz

دراصل رشی روایت ایک نئے ثقافتی رجحان کا حصہ تھی۔ کشمیر کے ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کی روایات بھی اس شامل کی گئیں۔ اس میں سبزی خوری اور مراقبہ یعنی یوگ کو ضبط نفس کے طریقوں کے طور پر استعمال کرنا شامل تھا۔ حضرت نورالدین رشی رحمۃ اللہ علیہ کورشی ازم کو سماجی اصلاح اور مساوات کی تحریک میں تبدیل کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

تزک جہانگیری میں رشیوں کے بارے میں لکھاہے کہ وہ سادگی کے مالک ہیں، دکھاوے بالکل نہیں کرتے، وہ کسی کو برا نہیں کہتے، وہ خواہش کی زبان اور تلاش کے پاؤں کو روکتے ہیں، وہ گوشت نہیں کھاتے، شادی نہیں کرتے اور کھیتوں میں ہمیشہ پھل والے درخت لگاتے ہیں، تاکہ لوگ ان سے فائدہ اٹھا سکیں، خود کوئی فائدہ نہیں چاہتے۔ ان میں تقریباً دوہزار لوگ ہیں۔"