نئی دہلی 5 ستمبر (اے این آئی):
ہم گیان واپی، کاشی اور متھرا پر بات چیت کے لیے تیار ہیں
پہلگام دہشت گردانہ حملے کی سازش ناکام بنانے کا سہرا ملک کی سول سوسائٹی کو جاتا ہے
مسلمانوں کی مبینہ "نسل کشی" سے متعلق غیر ملکی بیانیے پر یقین نہیں
آسام میں ہر مسلمان کو "بنگلہ دیشی" دکھایا جا رہا ہے
ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کیا ۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے درمیان مکالمے کی حمایت کا اظہار کیا اور حساس مذہبی معاملات پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ بیانات کا خیر مقدم کیا۔اے این آئی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اسلامی اسکالر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ان کی تنظیم پہلے ہی بات چیت کے حق میں قرارداد پاس کر چکی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ "اختلافات" موجود ہیں، لیکن انہیں کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مولانا مدنی نے کہاکہ یہاں کئی طرح کے 'اگر' اور 'مگر' ہیں... میری تنظیم نے قرارداد پاس کی ہے کہ بات چیت ہونی چاہیے۔ اختلافات ہیں، لیکن انہیں کم کرنا ہوگا... ہم بات چیت کی ہر کوشش کی حمایت کریں گے۔ حال ہی میں آر ایس ایس چیف نے گیان واپی اور متھرا-کاشی پر بیان دیے ہیں۔ ان کی مسلمانوں تک رسائی کی کوشش کی تعریف اور ستائش ہونی چاہیے۔ ہم ہر طرح کے مکالمے کی حمایت کریں گے۔"
انہوں نے بھاگوت کے گیان واپی مسجد اور متھرا-کاشی تنازعات سے متعلق تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوششوں کو سراہنے کی ضرورت ہے۔اس سے قبل، آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ رام مندر ہی وہ واحد تحریک تھی جسے سنگھ نے باضابطہ طور پر منظور کیا تھا، اگرچہ اراکین کو کاشی اور متھرا کی تحریکوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ہمیشہ بھارت میں رہے گا، ہر بھارتی کو تین بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی تاکہ آبادی میں توازن قائم رہے، اور مذہب تبدیل کرنے اور غیر قانونی ہجرت کو بگاڑ کا سبب قرار دیا، ساتھ ہی شہریوں کو روزگار فراہم کرنے پر زور دیا۔
مولانا مدنی نے حالیہ برسوں میں سیاسی زبان و بیان کے معیار میں گراوٹ پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے سیاسی رہنما، خواہ وہ اپوزیشن سے ہوں یا ریاستی سطح کے قائدین، سب ہی نامناسب اور توہین آمیز زبان استعمال کر رہے ہیں۔
پہلگام دہشت گردانہ حملے کی سازش ناکام بنانے کا سہرا ملک کی سول سوسائٹی کو جاتا ہے: محمود مدنی
مدنی نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کی سازش کو ناکام بنانے کا سہرا ملک کی سول سوسائٹی کو بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا واقعہ کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں بہت بڑی افراتفری مچ جاتی۔انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے تو جن شرپسندوں نے لوگوں کے نام پوچھ کر انہیں قتل کیا ۔ میں اپنے ہم وطنوں کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔ میں انہیں ہندو یا مسلمان میں تقسیم نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ یہ سچ ہے ، اگر یہ کسی اور ملک میں ہوتا تو پتہ نہیں کیسی افراتفری مچ جاتی۔ یہی بھارت کی خوبصورتی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اس شرمناک واقعے کو ناکام بنانے میں سب سے بڑا کردار اس ملک کی سول سوسائٹی کا تھا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ سازش ہے تاکہ اس ملک کے مختلف طبقات کو آپس میں لڑایا جائے اور اسے ناکام بنایا۔ یہ کام ’آپریشن سندور‘ سے بھی بڑا تھایاد رہے کہ 22 اپریل کو پاکستان کی پشت پناہی یافتہ دہشت گردوں نے پہلگام میں ایک دہشت گردانہ حملہ کیا تھا جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے تھے، جن میں 25 بھارتی شہری اور ایک نیپالی شامل تھے۔
مولانا مدنی نے کہاکہ سب سے پہلے تو جس طرح ان شرپسندوں نے لوگوں کے نام پوچھ کر قتل کیا وہ شرمناک تھا ،ایک سازش تھی ۔ میں اپنے ہم وطنوں کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔ میں انہیں ہندو اور مسلمان میں تقسیم نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ یہ بالکل سچ ہے کہ اگر یہ کسی اور ملک میں ہوتا تو پتہ نہیں کیسی افراتفری مچ جاتی۔ یہی بھارت کی خوبصورتی ہے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ سازش ہے تاکہ یہاں کی برادریوں کو آپس میں لڑایا جائے اور اسے ناکام بنایا۔ یہ کارنامہ ’آپریشن سندور‘ سے بھی بڑا ہے۔
سب فوج کے ساتھ
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ بھارتی مسلح افواج کے ساتھ کھڑا ہونا ہر شہری کا فرض ہے اور یہ کام اپوزیشن نے بھی آپریشن سندور کے وقت کیا تھا۔جب آپریشن سندور ہوا تو جو لوگ حکومت کو اچھے کام پر بھی تنقید کا نشانہ بناتے تھے، انہوں نے بھی اس کی حمایت کی۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہوں۔یاد رہے کہ 22 اپریل کو پاکستان کی پشت پناہی رکھنے والے دہشت گردوں نے پہلگام میں حملہ کیا تھا جس میں 26 سیاح مارے گئے تھے، جن میں 25 بھارتی اور ایک نیپالی شہری شامل تھا۔اس حملے کے بعد بھارتی مسلح افواج نے 7 مئی کی صبح آپریشن سندور شروع کیا، جس میں پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) میں جیش محمد اور لشکر طیبہ کے دہشت گرد کیمپوں پر درست نشانے لگائے گئے۔ اس دوران بھارت نے پاکستان کی جوابی جارحیت کو پسپا کرتے ہوئے اس کے فضائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا۔اس سے قبل 28 جولائی کو بھارتی فوج، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس نے تین دہشت گردوں کو مار گرایا تھا جو پہلگام حملے میں ملوث تھے۔29 جولائی کو مرکزی وزیر داخلہ نے لوک سبھا میں بتایا کہ ان تین دہشت گردوں کو آپریشن مہادیو کے دوران سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کیا۔ شاہ نے کہا کہ جن دہشت گردوں نے ہمارے شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا تھا، انہیں انجام تک پہنچا دیا گیا ہے۔وزیر داخلہ نے کہاکہ ایک مشترکہ آپریشن مہادیو میں بھارتی فوج، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس نے پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ملوث تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بے گناہ شہریوں کو ان کے خاندان کے سامنے مذہب پوچھ کر قتل کیا گیا۔ میں اس وحشیانہ حرکت کی شدید مذمت کرتا ہوں اور ان خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔"
ہر مسلمان کو "بنگلہ دیشی" دکھایا جا رہا ہے: محمود مدنی کی آسام کے وزیر اعلیٰ پر تنقید
جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے جمعہ کو کہا کہ بھارت میں کسی بھی "غیر ملکی" یا "بنگلہ دیشی" شہری کو نہیں رہنا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کے طریقہ کار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ ہر مسلمان کو "بنگلہ دیشی" کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔مولانا مدنی نے اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کوئی بنگلہ دیشی، کوئی غیر ملکی بھارت میں نہیں رہنا چاہیے… لیکن (آسام کے وزیر اعلیٰ) ہر مسلمان کو بنگلہ دیشی بتا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے بنگلہ دیش بھیج دیں گے، یہ ان کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے… وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہیرو ہیں اور میں زیرو ہوں۔مدنی نے الزام لگایا کہ آسام میں انتخابات سے قبل جبری بے دخلی کی جا رہی ہے اور سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کی توجہ اصل مسائل جیسے بے روزگاری اور بدعنوانی سے ہٹانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ آسام میں سپریم کورٹ کی ہدایات کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور جبری بے دخلی کی جا رہی ہے کیونکہ انتخابات قریب ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ بے روزگاری اور بدعنوانی پر سوال اٹھیں۔ وہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اسے ایک خاص برادری کا مسئلہ بنانا چاہتے ہیں۔ میرا اعتراض یہی ہے کہ یہ کارروائی ہدایات کے مطابق نہیں ہو رہی۔ بنگلہ دیشیوں کو واپس بھیجنے کا ایک طریقہ کار ہے، لیکن بے دخلی کے دوران اس پر عمل نہیں ہو رہا۔مولانا مدنی نے سیاسی زبان کے گرنے والے معیار پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس پر دھیان نہیں دیتے۔یہ مسائل اہم نہیں ہیں… حتیٰ کہ وزیر اعظم بھی اس پر دھیان نہیں دیتے۔ ہمیں سب کو ضبط سے کام لینا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔
یاد رہے کہ کچھ دن پہلے مولانا مدنی آسام گئے تھے اور حکومتی کارروائی کو "افسوسناک اور تکلیف دہ" قرار دیا تھا۔ریاست میں بے دخلی کی مہم چل رہی ہے… جس انداز میں یہ کیا جا رہا ہے وہ افسوسناک ہے۔ اگر آپ وہاں جائیں اور دیکھیں تو آپ کو بھی دکھ ہوگا۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی، خاص طور پر اس لیے کہ کوئی بھی معاشرہ یا ملک ایک نظام کے تحت چلتا ہے۔ اگر نظام کو توڑا جائے، پامال کیا جائے تو یہ بدقسمتی ہے اور جتنا اس کی مذمت کی جائے کم ہے۔۔ دوسری جانب، آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے مدنی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔جنہوں نے کہا تھا کہ"مدنی کون ہے؟ کیا مدنی خدا ہے؟ مدنی کی بہادری تب تک ہے جب تک کانگریس ہے۔ بی جے پی کے دور میں مدنی کی کوئی بہادری نظر نہیں آتی۔ اگر وہ زیادہ کرے گا تو میں اسے جیل بھیج دوں گا۔ میں وزیر اعلیٰ ہوں، مدنی نہیں۔
مسلمانوں کی مبینہ "نسل کشی" سے متعلق غیر ملکی بیانیے پر یقین نہیں
جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے جمعہ کو کہا کہ وہ مسلمانوں کی مبینہ "نسل کشی" سے متعلق غیر ملکی بیانیے پر یقین نہیں رکھتے۔انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد مسلم کمیونٹی کے خلاف بہت کچھ ہوسکتا تھا، لیکن سول سوسائٹی نے دہشت گردوں کی سازش کو ناکام بنایا۔ مدنی نے کہا کہ عوام دشمنوں کے اصل مقصد کو بھی سمجھیں گے جو ملک میں افراتفری اور فساد چاہتے ہیں۔مدنی نے کہاکہ بار بار بات ہوتی ہے،خاص طور پر ہندوستان سے باہر،کہ مسلمانوں کی نسل کشی ہوگی۔ یہ اکثر کہا جاتا ہے، حتیٰ کہ مجھ سے بھی ذاتی طور پر کہا گیا، لیکن میں اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔مدنی نے کہاکہ میں دور سے دیکھ رہا ہوں۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں میں پیشہ ورانہ صلاحیت بڑھی ہے۔ اگر آپ مجموعی صورتحال دیکھیں، تو پچھلے دس سال اور اس سے پہلے کے دس سال میں بڑا فرق ہے۔ مزید بہتری کی ضرورت ہے اور وہ ہونی چاہیے۔ ضرورت ہے کہ وہ زیادہ شمولیتی ہوں۔ اگر شمولیت بڑھے گی تو ان کا کام آسان ہوگا۔
پاکستان سے بھی بات ہو
جمعیۃ علمائے ہند کے صدر نے پاکستان کے ساتھ عدم مذاکرات کی پالیسی کی بھی حمایت کی، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ پاکستان نے بھارت پر دہشت گرد حملوں میں کردار ادا کیا۔انہوں نے کہاکہ کئی برسوں تک ہم نے پاکستان سے بات چیت کی پالیسی اپنائی، لیکن اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا۔ حکومت نے اب پاکستان سے علیحدگی کی جو پالیسی اپنائی ہے، اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے۔ جب ہم پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے، تب بھی ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔"