اردوشاعری میں رام اوررامائن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-04-2021
عہداکبری کی فارسی رامائن کی ایک تصویر
عہداکبری کی فارسی رامائن کی ایک تصویر

 

 

رام نومی پر خصوصی پیشکش


غوث سیوانی،نئی دہلی

قدیم ہندو روایات کے مطابق بھگوان رام ایشور کے اوتار تھے۔ ہندو مذہب میں، انھیں وشنو کے 10 اوتاروں میں سے ساتواں مانا گیا ہے۔ رام کی زندگی کی کہانی مہارشی بالمیکی نے لکھی ہے جسے رامائن کا نام دیا گیا ہے۔اس پر تلسی داس نے بھی بھکتی شاعری کی اور ''رام چرتر مانس'' رچی تھی ۔ شمالی ہندوستان میں رام خاص طور پر زیادہ قابل پرستش مانے جاتے ہیں۔انھیں ایک مثالی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مصورفارسی رامائن کا ایک ورق

مریاداپرشوتم رام

اساطیری روایات کے مطابق رام، ایودھیا کے راجہ دشرتھ اور رانی کوشلیا کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ رام کی بیوی کا نام سیتا تھا (جو لکشمی کا اوتار مانی جاتی ہیں) رام کے تین بھائی تھے۔ لکشمن، بھرت اور شتروگھن۔

ہنومان، بھگوان رام کے، سب سے بڑے پرستار مانے جاتے ہیں۔ رام نے راکشس ذات کے بادشاہ راون کو قتل کیا ۔ہندو مذہب کے کئی تہوار، جیسے رام نومی، دسہرہ اور دیوالی، رام کی زندگی کی داستان سے جڑے ہوئے ہیں۔

اصول پسند رام

ہندو روایتوں کے مطابق ان کی پیدائش لاکھوں سال قبل اجودھیا میں ہوئی تھی۔ وہ بچپن سے ہی شانت سوبھائو کے بہادر مرد تھے۔ انہوں نے ''اصول'' کو ہمیشہ اولین مقام دیا تھا۔ اسی وجہ سے انہیں ''مریادا پروشوتم'' رام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ بے انتہا خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاق وکردار میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اپنے اخلاق اور سلطنت کی وجہ ہندوستانی سماج میں انہیں جومقام حاصل ہوا ،ویسا دنیا کے کسی دیگر مذہبی یا سماجی لیڈر کو شاید ہی ملا ہو۔

بالمیکی رامائن کا فارسی نسخہ جوعہداکبری میں ترجمہ اور مصورہوا

ہندوستانی سماج میں انہوں نے زندگی کی جو مثال قائم کی اس کی اہمیت آج بھی پورے ہندوستان میں برقرار ہے۔ وہ ہندوستانی زندگی، فلسفہ اور بھارتی ثقافت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی ریاست اجودھیاکو خوشحال سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے ہندوستان میں جب بھی سوراج کی بات ہوتی ہے تو'' رام راج'' کی مثال دی جاتی ہے۔

مذہب کے راستے پر چلنے والے رام نے اپنے تینو ں بھائیوں کے ساتھ گرو سے تعلیم حاصل کی اور راکششوں کا قتل کرکے زمین کو فتنہ و فساد سے پاک کیا۔ان کے گرو وشوامتر انہیں متھلا لے گئے ،جہاں کے راجہ نے اپنی بیٹی سیتا کی شادی کے لئے سوئمبر منعقد کیا تھا ۔

بہت سارے راجہ، مہاراجہ اس تقریب میں آئے تھے مگر سوئمبر کو رام نے جیتا اور سیتا سے ان کی شادی ہوگئی۔

رام کا بن باس

اجودھیا میں ان کی زندگی کا آغاز پرسکون ہوامگر بعد میں ان کی زندگی میں کئی اتار چڑھائو آئے جو اس قصے کو دلچسپ بناتے ہیں۔ان کے والد راجہ دشرتھ نے اپنی حکومت کا کام کاج اپنے بیٹے رام کو سونپنے کا سوچا ،جس سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ رام کی سوتیلی ماں نے اپنے بیٹے بھرت کو راجہ بنانا چاہا اور رام کو چودہ سال کابنواس دے دیا۔

راجہ دشرتھ کی تین رانیاں تھیں،کوشلیا، سمترا اور کیکئی۔ سمترا کے دو بیٹے تھے لکشمن اور شتروگھن جب کہ کیکئی کے بیٹے بھرت تھے۔ رام کی ماں کوشلیا تھیں۔ریاست کی روایت کے مطابق راجہ کا سب سے بڑا لڑکا ہی راجہ بننے کا اہل ہوتا تھا، اس لئے رام کو ایودھیا کا بادشاہ بننا تھا۔

رانی کیکئی نے ایک بارراجہ دشرتھ کی جان بچائی تھی اور دشرتھ نے انہیں یہ عہد دیا تھا کی وہ زندگی میں کسی بھی لمحے ان سے کچھ بھی مانگ سکتی ہے۔ اس وعدے کی آڑ میں اس نے اپنے بیٹے بھرت کو راجہ بنوایااور دشرتھ کے ذریعے رام کو 14 سال کا بن باس دلایا ۔

وعدوں میں بندھے راجہ دشرتھ کو مجبورا یہ تسلیم کرنا پڑا۔ رام نے اپنے والد کی اطاعت کی۔رام کی بیوی سیتا اور ان کے بھائی لکشمن بھی ان کے ساتھ بن باس گئے تھے۔

بن باس کے دوران کے واقعات

بن باس کے دوران، راون نے سیتا کو اغوا کرلیا تھا۔ راون ایک راکشس اور لنکا کا راجہ تھا۔ رامائن کے مطابق، سیتا اور لکشمن کٹیا میں اکیلے تھے، تب ایک ہرن کا کلام سن کر سیتا پریشان ہو گئیں۔ وہ ہرن راون کا فرستادہ انسان تھا۔ اس نے راون کے کہنے پر سنہری ہرن کا روپ بنایا تھا۔ سیتا اسے دیکھ کر موہت ہو گئیں اور رام سے اس ہرن کا شکار کرنے کی درخواست کی۔

رام اپنی بیوی کی خواہش پوری کرنے چل پڑے اور لکشمن سے سیتا کی حفاظت کرنے کو کہا ۔وہ ہرن انھیں بہت دور لے گیا۔ موقع ملتے ہی رام نے تیر چلایا اور ہرن کو مارڈالا۔ مرتے مرتے اس نے زورزور سے "اے سیتا! اے لکشمن" کی آواز لگائی ۔ اس آواز کو سن سیتا فکر مند گئیں اور انہوں نے لکشمن کو رام کے پاس جانے کو کہا۔

لکشمن جانا نہیں چاہتے تھے، پر اپنی بھابھی کی بات پرانکار نہ کر سکے۔ لکشمن نے جانے سے پہلے ایک لائن کھینچی جو لکشمن ریکھا کے نام سے مشہور ہے ۔واپس آئے تو سیتا غائب تھیں۔راون انھیں اغوا کرکے لے جاچکا تھا۔

رام، اپنے بھائی لکشمن کے ساتھ سیتا کی تلاش میں در در بھٹک رہے تھے۔ تب وہ ہنومان اور سگریو نامی دوبانروں سے ملے۔ یہی ہنومان، رام کے سب سے بڑے بھکت بنے۔رام نے بانروں کی فوج کی مدد سے راون کو شکست دی، اس کا قتل کیااور اس کی جگہ پر اس کے بھائی کو لنکا کا راجہ بنایا۔ وہ سیتا کو واپس اجودھیا لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں آئے تو پورے ملک میں چراغاں کیا گیا اور خوشیاں منائی گئیں۔اسی سے دیوالی کی شروعات مانی جاتی ہے۔

اردو شاعری میں رامائن کی روایات

اردو شاعروں نے جن مذہبی شخصیات پر نظمیں تحریر کی ہیں ان میں ایک شری رام چندر بھی ہیں،جن کے واقعات رامائن میں بیان کئے گئے ہیں۔ رام کو ہندوستانی تہذیب کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے واقعات ملک کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ یہ داستان اس قدر مشہور ہے کہ ملک کے باہردوسرے ممالک میں بھی صدیوں سے لوگ اسے جانتے ہیں۔ہمارے ملک میں ہر سال اس کی یاد میں دسہرا منایا جاتا ہے اور واقعات کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے رام لیلا ہوتی ہے، جس میں رامائن کے واقعات کو ڈرامے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

اردو شاعروں میں اقبالؔ کو عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ اقبال نے مختلف موضوعات پر نظمیں کہی ہیں،مختلف شخصیات پر نظمیں لکھی ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے شری رام چندر پر بھی نظم کہی ہے۔ اپنی اس نظم میں انھوں نے رام کو ''امامِ ہند'' کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ''سب فلسفی ہیں خطۂ مشرق کے رام ہند'' ۔

رام کوئی تاریخی وجود نہیں بلکہ ایک اساطیری کردار ہے مگر اس کردار کو اس قدرشہرت ملی کہ آج یہ کردار بھارتیوں کے دل ودماغ پر ثبت ہوچکا ہے اور مورخین کو لگتا ہے کہ ممکن ہے یہ کردار کبھی موجود رہا ہو۔اقبال کو بھی اس کردار نے متاثر کیا ہے اور انھوں نے رام کی عظمت کو اپنی نظم کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔نظم کا عنوان ہے'' رام''۔ اس نظم کے کچھ شعر ملاحظہ ہوں۔

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند

سب فلسفی ہیں خطۂ مشرق کے رامِ ہند

ہے رام کے وجود پر ہندستاں کو ناز

اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

رامائن کے واقعات بہت طویل ہیں اور اس ایک داستان میں کئی چھوٹی چھوٹی داستانیں ہیں۔اس کتاب کے جہاں دوسری زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں اردو میں بھی ہوئے ہیں۔ بلکہ ایسے شعراء بھی گزرے ہیں جنھوں نے رامائن کا اردو میں منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ اردو میں اس موضوع پر جو نظمیں کہی گئی ہیں وہ داستان کے کسی ایک پہلو کو پیش کرتی ہیں۔ ایسی ہی نظم چکبستؔ کی ہے جس کا عنوان ہے ''رامائن کا ایک سین''۔ چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام

راہ وفا کی منزلِ اول ہوئی تمام

منظور تھا جو ماں کی زیارت کااہتمام

دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام

اظہارِ بیکسی سے ستم ہوگا اور بھی

دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی