مجوزہ ایودھیا مسجد: ابتک70 فیصد آن لائن ’عطیات‘ غیر مسلموں سے ملے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-05-2022
مجوزہ ایودھیا مسجد: ابتک70 فیصد آن لائن ’عطیات‘ غیر مسلموں سے ملے
مجوزہ ایودھیا مسجد: ابتک70 فیصد آن لائن ’عطیات‘ غیر مسلموں سے ملے

 

 

 منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

جس وقت ملک میں مختلف مساجد کے تنازعات سرخیوں میں چھائے ہوئے ہیں اور ملک فرقہ وارانہ جذبات کی لہروں پر ہے ،اس وقت ایک خبر نے پھر سب کو چونکا دیا ہے۔ 

دراصل مندر۔مسجد کی قانونی خبروں کے درمیان اس خبر نے پھر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے پہلو کو اجاگر کردیا ہے۔ملک کے مزاج کا ایک ایسا پہلو اجاگر کردیا ہے جو ہر ہندوستانی کو کہیں نہ کہیں دلی سکون دیتا ہے۔م 

دراصل مجوزہ ایودھیا مسجد کمپلکس کے لیے ’آن لائن‘ مالی عطیات دینے والوں میں 70 فیصد غیر مسلم ہیں۔

حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی بابری مسجد کیس کے فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ نے متبادل مقام پر مجوزہ مسجد کے لیے جو پانچ ایکڑ زمین الاٹ کی تھی وہ اب بھی تیکنیکی یا مختلف کاغذی مرحلوں سے ہی گزر رہی ہے۔

 اس بات کا انکشاف انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے سکریٹری اور ترجمان اطہر حسین نے ’آواز دی وائس ‘ سے بات کرتے ہوئے کیا۔ جو کہ اتر پردیش حکومت اور ریاستی سنی سینٹرل وقف بورڈ کے ذریعہ تشکیل دیا گیا ٹرسٹ ہے۔

اطہر حسین نے کہا کہ مجوزہ ایودھیا مسجد کے پورٹل پر عطیات کی سہولت بھی ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ اس میں 70 فیصد عطیات غیر مسلموں کے ہیں جو ایک حوصلہ بخش علامت ہے۔ بلکہ ملک کو ایک خوبصورت پیغام دے رہا ہے۔

ایمولینس سروس کا آغاز

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں عطیات سے کورونا کے دور میں دو ایمبولینس خریدی گئیں ،جن کے لیے ساز سامان لیا گیا،باقاعدہ اسٹاف رکھا گیا۔جن کا کورونا کے دوران انسانی خدمت کے لیے بھرپور استعمال ہوا ۔اس کا سینٹر دھنی پور کو ہی بنایا گیا تھا۔

اطہر حسین پر عزم ہیں وہ کہتے ہیں کہ اول تو کورونا کی لہر اور پھر ایک ٹرسٹی کپٹن افضل خان کے انتقال کے سبب بھی کام سست پڑا تھا مگر ایک بار دستاویزی خانہ پری مکمل ہوجائے تو پھر اس پر کام تیزی کے ساتھ شروع ہوگا۔

یاد رہے کہ پچھلے سال ضلع ایودھیا کے دھنی پورمیں مجوزہ منصوبے کے نقشے کی ڈرائنگ پیر کو ایودھیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو پیش کیا جاچکا ہے۔

انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے زیر نگرانی 5 ایکڑ اراضی پر ایک مسجد اور دیگر سہولیات تیار کی جائیں گی۔واضح ہوکہ مجوزہ مسجد کا مقام شہراجودھیا سے تقریباچھتیس کلومیٹر دور ہے۔

 ابھی انتظار ہے

 اطہر حسین نے مزید بتایا کہ اب دھنی پور کا علاقہ ایودھیا ڈولپمنٹ اتھاریٹی کے دائرے میں آگیا ہے ،جس کے سبب تعمیری کام شروع ہونے سے قبل دستاویزاتی مرحلہ چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ اب دھنی پور ایودھیا ڈولپمنٹ اتھاریٹی کے تحت آگیا ہے اس لیے اس کے ’’ڈولپمنٹ چارجز ‘کی جانکاری کے بعد ہی مزید کاغذی کارروائی کی جائے گی۔ 

مجوزہ ایودھیا مسجد کی تعمیر دھنی پور میں ہوگی 


انہوں نے کہا کہ دھنی پور کے ایودھیا ڈولپمنٹ اتھاریٹی میں شامل کئے جانے سے پہلے اس کی فیس بہت زیادہ نہیں تھی لیکن اب ڈولپمنٹ چارجز کا اندازہ ہوجائے تو پھر اس کو معاف کرانے کے لیے ریاستی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔ ڈولپمنٹ چارجز کا مرحلہ پورا ہونے کے بعد نقشہ کے تحت تعمیر کا کام شروع ہوسکتا ہے۔

اطہر حسین نے ’آواز دی وائس ‘ کو بتایا کہ یہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے ،ہم سب سے پہلے اسپتال کی عمارت تیار کرائیں گے تاکہ جلد سے جلد ’’او پی ڈی‘ کا آغاز کردیا جائے۔ہم چاہتے ہیں کہ پہلے انسانی خدمت کا آغام کردیا جائے جو دین کا حصہ ہے ۔

کیا ہے پروجیکٹ

اس پروجیکٹ میں ایک مسجد کے ساتھ ،اسپتال ،ایک میوزیم ،ایک آرکائیو،اسلامک اسٹڈیز کے ساتھ ہنر مندوں کے لیے تربیت کا سینٹر بھی بنے گا ۔ بقول اطہر حسین یہ کمپلکس عبادت کے ساتھ خدمت خلق کے جذبہ کا نمونہ بنے گا ،مجوزہ مسجد ایک نئے انداز میں مستقبل کی جانب نئے سفر کا آغاز ہے۔یہ مسجد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دین اور دنیا کے توازن کا بہترین نمونہ بنے گی۔

یاد رہے کہ ایودھیا مسجد کا ماڈل جب پہلی بار منظر عام پر آیا تھا توسرخیوں میں چھا گیا تھا۔ مسجد کے ڈیزائن میں گنبد اور مینار نہیں تھے۔بلکہ ’فن تعمیر‘کو ایک جدید رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ جو موضوع بحث بھی بنی۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھانے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی آرکی ٹیکچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈین پروفیسرایس ایم اختر ہیں ۔جنہوں نے اس کو اپنی پروفیشنل زندگی کا سب سے اہم پروجیکٹ مانا ہے کیونکہ اس میں بہت نازک پہلوشامل تھے۔

 انہوں نےاس بارے میں کہا تھا کہ اسلام میں گنبد اور مینار کی کوئی شرط نہیں رہی ہے۔اس کے ثبوت تاریخ میں موجود ہیں۔ہمیں ماضی سے باہر آنا ہوگا۔آپ کو حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔اسلام ہر دور کا مذہب ہے۔ 

اسلام کا پیغام ہی وقت کے ساتھ چلنے کا ہے۔ہمیں نئے دور کے فن تعمیر کو تسلیم کرنا ہوگا۔ماضی میں بھی بغیر گنبد اور مینارکی مساجد تھیں اور اب بھی ہیں۔ہندوستان کی پہلی مسجد پیغمبر اسلام کی زندگی کے دوران ہی کیرالہ کے کوڈنگلور علاقے میں قائم کی گئی تھی اس میں بھی گنبد اور مینار نہیں ہے۔

 انڈو اسلامک کلچرل فاونڈیشن میں 9 ممبران پر مشتمل ہے۔ٹرسٹ کے صدر اور چیف ٹرسٹی،ظفر احمد فاروقی ہیں جو کہ اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ کے چئیر مین بھی ہیں۔بابری مسجد تنازعہ کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوششوں میں پیش پیش رہے تھے۔