جلوس اور دھرنے عشق رسول نہیں ۔ شاہی امام پنجاب

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-10-2025
جلوس اور دھرنے  عشق رسول نہیں ۔  شاہی امام پنجاب
جلوس اور دھرنے عشق رسول نہیں ۔ شاہی امام پنجاب

 



نئی دہلی : آواز دی وائس

عشق رسول دھرنے اور جلوسوں سے نہیں ہوتا ہے ،یہ عشق مسلمانوں کے خون اور کردار میں شامل ہے ۔ جلوس اور دھرنے کے اس نئے رجحان کو تبدیل کریں ۔

پنجاب کے شاہی امام مولانا عثمان رحمانی لدھیانوی  نے اپنے خطاب میں آئی لو محمد کے تنازعہ پر  ان الفاظ میں سخت ناراضگی کا اظہار کیا ۔

انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا  ہم  بنا نماز پڑھے  سڑکوں پر اتر جائیں اور   توڑ پھوڑ کریں ۔ ہم پر مقدمہ ہو جائے اور چھ چھ ماہ جیل میں رہیں ۔کوئی پوچھنے بھی نہیں آئے ۔ ہم کو سوچنا  ہوگا کہ یہ اسلام کا مزاج نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر کچھ کرنا ہے تو باضابطہ طور پر اپنے لیڈران سے کہیں کہ  میدان تیار کریں ،حکومت سے بات کریں اور اس کے لیے ایک میمورنڈم تیار کریں تاکہ انتظامیہ کو آپ کی شکایتوں کی جانکاری ہو ۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور اب نوجوان اس کی قیمت ادا کررہے ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ  عشق رسول کیا ہے ۔۔ہم کو سمجھنا ہوگا، 

۔کسی کی بہو بیٹی کو دیکھ کر نظریں جھکا لیا کرو ۔۔ آپ عا شق رسول  کہلائیں گے

۔کوئی سامان تولتے ہوئے کچھ زیادہ دیدیا کرو ۔۔ آپ عاشق رسول کہلائیں گے

۔طاقت میں رہنے کے باوجود  اپنے سے کمزور کو معاف کردیا کرو  ۔۔۔ آپ عاسق رسول کہلائیں گے ۔

۔اگر غریب کی مدد کرسکتے ہو تو آگے بڑھ کر کرو ۔۔ عاشق رسول کہلائیں گے

انہوں نے مزید کہا کہ  کہاں ہیں مولوی ۔۔ اس تنازعہ کے بعد سب غالب ہیں،آئی لو محمد کا مسئلہ 15 20 دن سے چل رہا ہے ، کسی بڑے مولوی کا بیان نہیں آیا ،کسی مسلم ممبر پارلیمنٹ کا بیان نہیں آیا،  کسی مسلم وزیر کا بیان  نظر نہیں آیا،آج جب اگر چندہ مانگنا ہو تو ہر مسجد میں اعلان ہوگا،کوئی جلسہ ہوگا تو ہر مدرسے میں اعلان ہوگا  کہ  آئیے اور شرکت کرئیے ۔ اب جب کوئی دکھ میں ہے اور درد میں ہے تو  سب غائب ہیں ۔ کوئی نظر نہیں آرہا ہے جبکہ الزام عائد کررہے ہیں حکومت پر ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے نہیں کہا کہ ہے  تم بغیر شہ سوار اور قائد کے مظاہرے کرو ۔ حکومت تو کہہ رہی ہے کہ اپنے لیڈران کے ساتھ آو ،بات کرو ۔مگر حکومت سے تو کوئی بات کر ہی نہیں رہا ہے

انہوں نے کہا کہ اگر اتر پردیش میں کوئی  واقعہ ہوا ہے تو کوئی بڑا مولوی یا عالم حکومت سے رابطہ کر سکا ،کسی  مسلم ممبر اسمبلی یا کسی ممبر پارلیمنٹ نے یوگی حکومت سے بات کی ۔ کسی نے وزیر اعلی  آدتیہ ناتھ یوگی سے ملاقات کی ۔کوئی ان سے ملاقات کرتا کہتا کہ  مسلمانوں کے   ساتھ یہ زیادتی ہوئی ہے ،کوئی کارروائی کی جائے ۔اگر کسی سے ملاقات کرنا ہے تو  اس کا ایک قاعدہ ہوتا ہے ،میمورنڈم دیا جاتا ہے ۔ جس سے ملاقات کرنے کی خواہش ہے تو اس کے آفس کے باہر ٹہلنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ایک طریقہ ہے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے ۔