سجے گیا دلی دربار۔جموں و کشمیر پر ہورہی بات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
آل جماعتی میٹنگ سے قبل
آل جماعتی میٹنگ سے قبل

 

 

 آواز دی وائس ۔ نئی دہلی

آج کا دن کہیں نہ کہیں کشمیر کی سیاست اور مستقبل کےلئے بہت اہم ہونے والا ہے،کیونکہ ایک طویل عرصے کے بعد کشمیر اورمرکز کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔پچھلے چند دنوں کے درمیان سیاسی اور سرکاری سطح پر جو کچھ ہوا اس نے کشمیر میں بڑے پیمانے پر جمہوری عمل کی راہ ہموار ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ پہلے مرکز کی کشمیر کے قومی دھارے کے سیاستدانوں کو دہلی آنے اور بات چیت کی دعوت اور پھر کشمیری قیادت کا اس دعوت کو قبول کرنا ایک مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔کشمیر کے خصوصی درجہ کے خاتمہ کے بعد کنارے لگ گئے کشمیری لیڈران کےلئے اب سرگرم سیاست میں واپسی کی راہ کھل رہی ہے۔جن کے سامنے اب اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہا ہے کہ مرکز کی اس پیشکش کو قبول کرکے میز پر آجائیں۔اس بات پر تو سب ایک رائے ہیں کہ مسئلہ کا حل بات چییت سے ہی نکلے گا۔

یاد رہے کہ  مرکزی حکومت نے 24 اگست یعنی آج جموں وکشمیر کی تمام علاقائی سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلایا تھا اور اب یہ میٹنگ شروع ہوچکی ہے۔اگست 2019 کے بعد یہ اس طرح کی پہلی میٹنگ ہے جب خطہ کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا گیا تھا۔ 

قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ مرکز ی حکومت جموں وکشمیر کے لیے ریاست کے درجہ کی بحالی پر تبادلہ خیال کرسکتی ہے۔ در اصل ، 5 اگست ، 2019 کو ، جب مرکز نے یہاں صدر راج نافذ کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35اے کو منسوخ کیاتھااس وقت مرکزی قیادت نے وعدہ کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں صورتحال بہتر ہونے کے ساتھ ہی ریاست کی حیثیت بحال ہوجائے گی۔انتخابات منعقد کرنے کی امیدیں پیدا ہو گئی ہے۔ جموں و کشمیر 2018 سے مرکز کے زیر انتظام ہے۔

 جموں و کشمیر کے 14 سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لئے مدعو کیا ہے۔ یہ پانچ اگست 2019 کے بعد خطہ میں مین اسٹریم سیاست کو بحال کرنے کی جانب ایک اہم قدم مانا جاتا ہے۔

جموں و کشمیر کے 14 سیاسی رہنماؤں کی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے پیش نظر جموں و کشمیر میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ جموں و کشمیر کے کچھ اہم لیڈروں نے دہلی کا رخ کیا۔ تاہم پی اے جی ڈی کے سربراہ فاروق عبداللہ ابھی کشمیر میں ہی ہیں۔ تاہم ان کے فرزند عمر عبداللہ دہلی میں ہیں۔کچھ لیڈر آج صبح یا سہہ پہر تک دہلی پہنچ جائیں گے۔

 کچھ آگئے۔کچھ آرہے ہیں 

فاروق عبداللہ کل 9.30 بجے دہلی جائیں گے۔پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی دہلی پہنچ چکی ہیں۔پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلریشن کے ترجمان اعلیٰ محمد یوسف تاریگامی کل ہی دہلی آگئے تھے۔جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون دو دن پہلے ہی دہلی آ گئے ہیں۔ پیپلز کانفرنس ڈی ڈی سی انتخابات کے دوران گپکار اعلامیہ کا حصہ تھی لیکن بعد میں اس نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔جموں و کشمیر اپنی پارٹی، جو پی اے جی ڈی کا حصہ نہیں ہے، کے سربراہ الطاف بخاری ہیں،وہ بھی دہلی آگئے ہیں۔

شرکت کا فیصلہ

 پی اے جی ڈی میں شامل پارٹیوں نے سرینگر میں لگ بھگ دو گھنٹے طویل میٹنگ میں فیصلہ کیا تھا کہ پی اے جی ڈی میں شامل پارٹیوں کے جن لیڈران کو کل جماعتی میٹنگ کے تعلق سے دعوت نامے موصول ہوئے ہیں ، وہ ذاتی طور پر اس میٹنگ کا حصہ بنیں گے ۔ میٹنگ کے اختتام پر پی اے جی ڈی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ اس اتحاد میں شامل تمام پارٹیوں کے نمائندے ذاتی طور پر اس میٹنگ میں شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کل جماعتی میٹنگ میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے سامنے اپنا موقف رکھیں گے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ میٹنگ میں جن بھی مدعوں پر بات ہوگی ، وہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے عام لوگوں کے سامنے رکھے جائیں گے۔

 ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے پوچھا گیا کہ ان کا موقف کیا ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ " ہمارا موقف آپ کو معلوم ہے ، وہ ہے اور رہے گا۔" تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اس موقع پر کہا کہ ان کی جماعت بات چیت کے خلاف نہیں ہے ، تاہم مرکز کو چاہئے کہ وہ بنیادی سطح پر اعتماد بحال کرنے کے لئے بنیادی سطح پر اقدامات کرے ۔

 جموں میں بھی ہلچل

 کل جموں میں بی جے پی کے رہنماؤں کی ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ بی جے پی کے ریاستی سربراہ رویندر رینا، سابق نائب وزیراعلیٰ کویندر گپتا اور نرمل سنگھ وزیراعظم کے جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں شامل ہوں گے۔جموں و کشمیر نیشنل پیتھرس پارٹی کے سربراہ پروفیسر بھیم سنگھ بھی دہلی پہنچ چکے ہیں۔ وہ بھی 24 جون کو کل جماعتی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ تاہم انہیں کی پارٹی کے چیرمین ہرش دیو سنگھ جموں میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جموں کو الگ ریاست کا درجہ دیا جائے۔

کیا ہے امید 

سیاسی تجزیہ کا روں کا ماننا ہے کہ یہ صرف آغاز ہے۔ آمنے سامنے بیٹھنے کی پہلی کوشش۔اس میں بات چیت کی راہ نکلے گی۔ ایک دوسرے کو پرکھا جائے گا۔ کشمیری لیڈر اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ مرکز کس حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس میں ان کے بقا کی گنجائش ہے یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کشمیری لیذر مرکز کے سامنے کشمیر کو سیاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کریں گے۔ مرکز نے ایسا کرنے کا وعدہ ضرور کیا ہے لیکن یہ کب ہوگا اس بارے میں فوری طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔تجزیہ کار مان رہے ہیں کہ ابھی اس کا فیصلہ ممکن نہیں کیونکہ فی الحال مرکز کو بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس کے بعد ریاست کا درجہ دئیے جانے کا اعلان کیا جائے گا۔بہرحال آج ہر کسی کی نظر اس جانب ہوگی کہ کس کے چہرے پر کیا تاثر ہیں ۔کون مسکرا رہا ہے اور کون نہیں۔ ایک بات واضح ہے کہ آج کی میٹنگ اس بات کا اشارہ دیدے گی کہ کشمیر کی سیاست کی سمت کیا ہوگی؟