ہندوستان اور چین کے درمیان لداخ خطہ میں سرحدی تنازعہ ایک سمجھوتہ کے تحت حل ہوچکا ہے اور چین نے جس تیزی کےساتھ اپنی فوج کو سابقہ پوزیشن پر پہنچایا ہے اس نے ہر کسی کو حیران کردیا ۔ ہندوستان کےلئے ایک بڑی کامیابی ہے جو چین کو اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ مگر ایک سفارتی اور فوجی کامیابی پر جو سیاست شروع ہوئی ہے اس نے سب کو کشمکش کا شکار کردیا ہے۔اب سابق فوجی سربراہ وید ملک نے اس معاہدے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دفاعی حقائق سے ناواقفیت ہے جو لوگ اس کو مسئلہ بنا رہے ہیں اور سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔میرے لئے اس قسم کی تنقید بہت حیران کن ہے۔
یاد رہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر جاری کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہواہے ۔معاہدے کے مطابق ہندوستان نے اپنے دائرہ اختیار والے مشرقی لداخ میں پینگونگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کنارے پر دس کلومیٹر چوڑا بفر زون بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
سابق چیف آف آرمی اسٹاف وی ملک نے ٹیوٹر پر چھ نکات کو بیان کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ معاہدہ ایک کامیابی ہے ۔اس کو مشکوک نہیں بنانا چاہیے۔ان کے ٹیوٹس مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ مشرقی لداخ میں انڈیا اور چین کے درمیان فوج کی واپسی کے متعلق ہونے والے معاہدے کی تنقید میرے لئے حیران کن ہے۔ زیادہ تر لوگ اس پر تنقید اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ حقائق سے ناواقف ہیں اور سیاسی عسکری فہم سے نابلد ہیں یا پھر وہ شدید تعصب کا شکار ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں، پینگونگ جھیل کے آس پاس تعینات فوجی 20 اپریل 2020 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آئیں گے۔
2۔ کسی تنازعے سے بچنے کے لئے فنگر 4 اور فنگر 8 کے درمیان انتہائی کم درجہ حرارت میں گشت کو روکنا ضروری ہے۔ معاہدے کے مطابق اپریل 2020 کے بعد یہاں تعمیر کردہ کسی بھی سکیورٹی ڈھانچے کو ختم کردیا جائے گا۔ جب کیلاش کا علاقہ خالی ہوجائے گا تو ہمارے فوجی وہاں سے قریب تر حصے چوشول میں تعینات ہوں گے۔
3۔ ان سب چیزوں کے ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر، دیپسانگ، گورا، ہاٹ سپرنگ، اور گلوان میں پیچھے ہٹنے کے لئے بات چیت ہوگی۔ دونوں ملکوں کے کیڈر کسی بھی طرح کے معاملے کی نگرانی، تصدیق یا حل کرنے کے لئے ملاقاتیں کرتے رہیں گے۔ اعتماد کی کمی کی وجہ سے ہمارے فوجیوں کے لئے چوکنا رہنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ چینی فوج کوئی غیر منصفانہ فائدہ نہ اٹھائے اور اپنے وعدے کو نہ توڑے۔
4۔ میرے خیال سے فوجیوں کے پیچھے ہٹنے اور پوری طرح سے کشیدگی ختم ہونے میں زیادہ وقت لگنا طے ہے۔ انڈیا اور چین کے مابین کسی بھی قسم کی جنگ حتی کہ جزوی جنگ بھی قومی یا علاقائی مفاد میں نہیں ہے۔ چین کی فوج نے کوشش کی لیکن کسی بھی طرح کا سیاسی یا فوجی تسلط حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ہمارے فوجیوں نے چینی فوج کو روکنے میں اپنی پوری صلاحیت اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔
5۔ ہم نے چین کو پہلے والی حالت پر جانے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ہندوستان یہ پیغام دینے میں واضح طور پر کامیاب ہوگیا کہ (الف) ایل اے سی کی خلاف ورزی سے دونوں ممالک کے مابین تمام تعلقات متاثر ہوں گے۔ (ب) اپنی سرحد پر تعمیرات جاری رہیں گی اور (ج) ہندوستان نے اپنے آپ کو جغرافیائی، سیاسی، سٹریٹیجک اور معاشی طور پر مضبوط کیا ہے۔
6۔ ابھی سے ایل اے سی پر پہلے جیسا امن اورہندوستان اور چین کے مابین پہلے جیسے تعلقات کی توقع کرنا جلدبازی ہو گی۔ ایل اے سی پرہندوستان نے جس طرح کے فوجی اور معاشی اقدامات اٹھائے ہیں اسے جاری رکھنا ضروری ہوگا۔
1. India-China Disengagement in East Ladakh. Surprised to see criticism. Mostly due to ignorance of facts or politico-military understanding or sheer prejudice. Phase 1. Tps around Pangong Tso to go back to pre-Apr 2020 locs.
— Ved Malik (@Vedmalik1) February 13, 2021