نئی دہلی: لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے جسٹس یشونت ورما کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے، اور اس صورت میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کے پاس پارلیمنٹ کے ذریعے برطرف کیے جانے سے بچنے کا واحد راستہ استعفیٰ دینا ہی بچتا ہے۔
تحقیقی کمیٹی میں سپریم کورٹ کے جج اروند کمار، مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منیندر موہن سریواستو اور کرناٹک ہائی کورٹ کے سینئر وکیل بی وی آچاریہ شامل ہوں گے۔ برلا نے منگل کو لوک سبھا میں کہا، ’’کمیٹی جلد از جلد اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہونے تک جسٹس ورما کو ہٹانے کی قرارداد التوا میں رہے گی۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ انہیں 31 جولائی کو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ روی شنکر پرساد اور ایوان میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی سمیت حکمراں اور اپوزیشن دونوں جانب کے کل 146 ارکان کی دستخط شدہ ایک قرارداد موصول ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قرارداد میں جسٹس یشونت ورما کو ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹانے کے لیے صدرِ جمہوریہ کو ایک عرضداشت پیش کرنے کی تجویز ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری اور برطرفی کے عمل سے واقف افسران نے بتایا کہ کسی بھی ایوان میں اراکین پارلیمنٹ کے سامنے اپنا موقف رکھتے ہوئے جسٹس ورما یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں، اور ان کا یہ زبانی بیان ہی ان کا استعفیٰ تصور کیا جائے گا۔ اگر وہ استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے برابر پنشن اور دیگر سہولیات ملیں گی۔
افسران نے کہا کہ لیکن اگر انہیں پارلیمنٹ کے ذریعے برطرف کیا جاتا ہے تو وہ پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہو جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 217 کے مطابق، ہائی کورٹ کا کوئی جج ’’صدر کو مخاطب اپنے دستخط شدہ خط کے ذریعے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے سکتا ہے‘‘۔ جج کے استعفے کے لیے کسی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک عام تحریری استعفیٰ ہی کافی ہے۔
جج اپنے استعفے میں کسی متوقع تاریخ کا ذکر بھی کر سکتا ہے اور ایسی صورت میں وہ اس تاریخ سے قبل اپنا استعفیٰ واپس لے سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے برطرفی ایک اور طریقہ ہے۔ اس سے قبل چیف جسٹس سنیل کھنہ نے نقدی کی برآمدگی کے تنازع میں پھنسے جسٹس ورما کو ہٹانے کے لیے صدر اور وزیر اعظم کو خط لکھا تھا۔
مارچ میں قومی دارالحکومت میں واقع جسٹس ورما کی سرکاری رہائش گاہ سے آدھی جلی ہوئی نوٹوں کی گڈیاں ملنے کے بعد انہیں دہلی ہائی کورٹ سے الہ آباد ہائی کورٹ بھیج دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کھنہ کی رپورٹ اس معاملے کی تفتیش کرنے والے تین ججوں کے داخلی پینل کی سفارشات پر مبنی تھی۔
ذرائع نے پہلے بتایا تھا کہ چیف جسٹس کھنہ نے جسٹس ورما کو استعفیٰ دینے کا کہا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ ججز (انکوائری) ایکٹ 1968 کے مطابق، جب کسی جج کو ہٹانے کی قرارداد کسی بھی ایوان میں قبول کر لی جاتی ہے تو اسپیکر یا چیئرمین تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں۔ یہ کمیٹی ان بنیادوں کی جانچ کرتی ہے جن پر جج کو ہٹانے (یعنی مواخذے) کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کمیٹی میں چیف جسٹس آف انڈیا یا سپریم کورٹ کے جج، 25 ہائی کورٹس میں سے کسی ایک کے چیف جسٹس اور ایک ممتاز قانون دان شامل ہوتے ہیں۔ قانون کے مطابق، کمیٹی تشکیل دینے کے بعد وہ اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے، پھر یہ رپورٹ ایوان میں رکھی جاتی ہے اور مواخذے پر بحث شروع ہوتی ہے۔
مارچ میں جسٹس ورما کی دہلی میں رہائش گاہ پر آگ لگنے کے بعد وہاں سے آدھی جلی نوٹوں کی گڈیاں برآمد ہوئی تھیں۔ اگرچہ جج نے دعویٰ کیا کہ انہیں اس نقدی کے بارے میں کوئی علم نہیں، لیکن سپریم کورٹ کی مقرر کردہ کمیٹی نے کئی گواہوں کے بیانات لینے کے بعد جسٹس ورما کو قصوروار ٹھہرایا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس وی راما سوامی اور کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس سومترا سین نے بھی مواخذے کی کارروائی کا سامنا کیا تھا لیکن انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں مواخذے کی کارروائی پہلی مرتبہ ہوگی، جو جسٹس ورما کے خلاف ہوگی۔