اڈیشا: اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں خاتون پہلوان طاہرہ خاتون

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
اڈیشا: اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں خاتون پہلوان طاہرہ خاتون
اڈیشا: اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں خاتون پہلوان طاہرہ خاتون

 

 

شاہ عمران حسن، نئی دہلی

بہت سے افراد میں بے پناہ صلاحیتیں ہوتی ہیں، وہ اچھا سے اچھا کرنا چاہتے ہیں،وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرناچاہتے ہیں، اپنا اور اپنے دیش کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں، تاہم معاشی مشکلات انہیں ایسا کرنےسے باز رکھتی ہے۔ اگر سماج کے کچھ ذمہ دار شہری ان باحوصلہ نوجوانوں کی فنڈینگ یا مالی معاونت کی ذمہ داری اٹھا لیں تو معاشی مشکلات کے شکار باہمت فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر پائیں گے۔ ایسی ہی ایک خاتون پہلوان طاہرہ خاتون ہیں، جو معاشی مشکلات کا شکار ہیں تاہم وہ ریسلنگ کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

طاہرہ خاتون نے اس ریاست میں ریسلنگ کی دنیا میں کامیابی حاصل کی ہے، جہاں یہ کھیل بہت زیادہ توجہ کا مرکز نہیں ہے۔ ایک متوسط مسلم گھرانے سے تعلق رکھنے والی پہلوان طاہرہ خاتون نے جب اس میدان میں قدم رکھا تھا وہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ یہ راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے، تاہم ان کی استقامت اور عزم نے انہیں آگے بڑھائے رکھا۔

جب طاہرہ خاتون نے ریسلنگ کی دنیا میں قدم رکھا توکمیونٹی کی طرف سےاعتراض شروع ہوگیا کہ ریسلنگ چھوڑ دیں اور برقعہ زیب تن کر لیں۔ تاہم انہوں نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا۔ انہوں ریسلنگ بھی ترک نہیں کیا اور برقعہ بھی پہنتی رہیں۔

اٹھائس سالہ طاہرہ خاتون نے قومی سطح پر اپنی شناخت بنانے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے۔ یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ اس کے پاس نہ تو کٹک میں اس کے کلب میں ایک بہتر پہلوان بننے کے لیے مضبوط ساتھی ہیں اور نہ ہی انہیں بھرپور غذائی مدد حاصل ہے۔

تاہم انہیں بڑے پیمانے کامیابی حاصل نہ کرنے افسوس نہیں ہے؛ کیونکہ انہیں ریسلنگ سے جنون کی حدتک عشق ہے۔ طاہرہ خاتون ہمہ وقت ریسلنگ کے لیے تیاررہتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر میں شادی کر لیتی ہوں تو مجھے ریسلنگ چھوڑنے کے لیے کہا جائے گا کیونکہ مسلمان لڑکیوں کے لیے شادی کے بعد اس طرح کےکھیل کو جاری رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور میں ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیچ کی تین لڑکیوں نے شادی کر لی اور اب وہ خاندانی دباؤ کی وجہ سے نہیں کھیل سکتی ہیں۔ تاہم میں نہیں چاہتی کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہو۔ 

انہوں نے کہا کہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں نے کبھی میرے اس کھیل کی تعریف نہیں کی۔ میری والدہ صحرا بی بی نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا تھا۔ جب طاہرہ دس سال کی تھی، ان کے والدہ ایس کے احمد فوت ہوگئے تھے۔ ریسلنگ کی پریٹکس میں طاہرہ کی مدد ان کے دو بھائیوں (ایک آٹو ڈرائیور اور دوسرا پینٹر) کے علاوہ کوچ راج کشور ساہو کی طرف سے ملتی ہے۔ ریسلنگ مجھے خوشی دیتی ہے۔اگر میں قومی سطح پر اچھا نہیں کھیل پارہی ہوں تو کم از کم میں مقابلہ توکر رہی ہوں۔

مجھے ریسلنگ کی چٹائی بہت خوشی دیتی ہے۔ طاہرہ نے حال ہی میں اتر پردیش کے گونڈا میں ہونے والی قومی چیمپئن شپ میں حصہ لیا تھا تاہم 65 کلوگرام کے زمرے میں وہ پہلے راؤنڈ سے باہر ہو گئیں۔ وہ اپنے والد کی موت کی وجہ سے پیدا ہونے والےافسردگی پر قابو پانے کے لیے ٹیبل ٹینس کھیلا کرتی تھیں۔ دریں اثنا ریسلنگ کوچ ریحانہ نے انہیں ریسلنگ کی طرف مائل کیا۔ ریحانہ نے انہیں ایک ماہ تک تربیت دی اور اسے ضلعی چیمپئن شپ کے لیے 'خردہ پہلا' لے گئیں، جہاں انہوں نے مقابلہ جیتا تھا۔

لوگ مجھے کہتے ہیں 'کشتی نے تمہیں کچھ نہیں دیا'۔ کوئی سہولت نہیں، نوکری نہیں دی۔ لیکن میری ماں مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ اگر مجھے پہلوانی پسند ہے تو مجھے اسی میں اپنی قسمت آزمانہ چاہئے۔ طاہرہ قومی سطح پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی کو مایوس نہیں کرنا چاہتی ہیں

طاہرہ کہتی ہیں کہ جب میں کٹک میں داخل ہوتی ہوں تو میں 'برقع' پہنتی ہوں۔ میں ریسلنگ کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہوں۔ جب میں کھیلنے کے لیے باہر آتی ہوں تو جو بھی ضروری ہوتا ہے اسے پہنتی ہوں تاہم میں اپنے بڑوں کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتی۔

ان کے الفاظ میں'دھرم بھی چاہیئے، کرم بھی'۔

وہ کہتی ہے کہ سنہ 2018 میں،میں نے اپنی ماں کو کھو دیا۔ جب تک وہ زندہ تھیں وہ میرا سہارا بنی ہوئی تھیں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ طعنے سنے لیکن اب مجھے کوئی پرواہ نہیں، میں اب اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینا چاہتی ہوں۔ میں اپنے کیرئیر کے مکمل ہونے کے بعد ضرور برقعہ پہنوں گی۔اب چیزیں بدل رہی ہیں۔

قومی سطح کے مقابلےکے لیے بہت سے لوگوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، اس کے لیے دوسری جدوجہد جاری ہے۔ انہیں اپنے کوچ اور بھائیوں سے جو تھوڑی سی مدد ملتی ہے وہ کافی نہیں ہے۔ کبھی کبھی اسے مایوسی بھی ہوتی ہے اور کبھی کبھی اسے لگتا ہے کہ اس کا کیریئراب ختم ہو جائے گا، لیکن وہ اپنی بھتیجیوں کو اس کھیل میں شروع کرنا چاہتی ہے اور ایسا کرنے کے لیے اسے مالی استحکام کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کاش مجھے نوکری مل جاتی، کم از کم ہوم گارڈ کی نوکری۔

طاہرہ نے کہا کہ میں یوگا ہوم ٹیوشن دے کر اپنے اخراجات کا انتظام کرتی ہوں اور ان لوگوں کی بھی مدد کرتی ہوں جنہیں فزیو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے یہ تمام چیزیں تربیتی کیمپوں میں شرکت کے دوران پہلوانوں سے سیکھی ہیں۔ میرے بھائی کب تک میرا ساتھ دیں گے، مجھے نوکری چاہیے۔ میں صرف 4-5 ہزار ماہانہ کماتی ہوں۔ طاہرہ پروٹین یا خشک میوہ جات لینے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ ابھی وہ چاول اور سبزی ہی برداشت کرسکتی ہے۔ بھرپور خوراک کی کمی کی وجہ سے، اب اس کے پاس کیلشیم اور ہیموگلوبن کی سطح کم ہوگئی ہے۔

اس کا جسم یہ اشارہ دے رہا ہے کہ وہ کھیل کو جاری نہیں رکھ سکتی لیکن اب بھی وہ حوصلہ مند ہے۔اس نے ہائی بلڈ پریشرکےساتھ اورڈاکٹرکےمشورے کے خلاف نیشنلز میں مقابلہ کیا۔ اس کے کوچ راج کشور ساہو نے نے ایک موقع پر کہا تھا کہ کسی نے طاہرہ کو پانی کا ایک گلاس بھی پیش نہیں کیا، مدد اور سہولیات فراہم کرنا تو دور کی بات۔

طاہرہ خاتون کے کوچ راج کشور ساہو چھ سال قبل فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (FCI) سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست اوڈیشا میں پہلوانوں کی حالت بہت خراب ہے۔