مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازانہ سلوک نہ کیا جائے:آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-06-2022
 مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازانہ سلوک نہ کیا جائے:آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ
مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازانہ سلوک نہ کیا جائے:آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ

 

 

شاہ عمران حسن، نئی دہلی

ہندوستان کے اندر کسی بھی انسان کے ساتھ مذہب کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جانا چاہئے اور جو لوگ مذہب کے نام پر منافرت کی باتیں کرتے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔یہ مطالبہ ہندوستان کی معروف غیر سیاسی تنظیم 'آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ' نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کی ہے۔

آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ نے کہا ہے کہ ہندوستان کے اندر  دینی مدارس میں پیغمراسلام کی تعلیمات کی تعلیمات خاص طور پر حجتہ الوداع کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے، اس کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے کیوں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔یہ خطبہ سماج میں بھائی چارے کی مثال پر زور دیتا ہے۔ یہ خطبہ انسان کو آپس میں جوڑتا ہے۔' یہ خطبہ ہندو مسلم اتحاد کی علامت اور اسلام کی علامت ہے۔ 

 اس کے علاوہ  آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ حکومت سے درج ذیل مطالبے کیے:

1۔ دفعہ 341 کے تحت مذہبی پابندی کو ختم کر سبھی کو ایس سی ریزروییشن دیا جائے۔

2۔ پسماندہ سماج کو حکومت ان کی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی دے۔

3۔ دینی مدارسی کی جدید کاری کی جائے۔

4۔ اقلیتوں کے نام پر جو بھی ادارے چل رہے ہیں، ان کا از سرنو جائزہ لیا جائے۔ نیز پسماندہ سماج کی خاتون کو نمائندگی دی جائے۔

5۔ وقف بورڈ ختم کرکے حکومت اس کو اپنی تحویل میں لے لے اور اس کو حقوق سے محروم مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے۔ 

6۔ بنکروں آسان اور کم ریٹ پر بجلی کی فراہمی کی جائے۔

7۔ او بی سی ریزروییشن میں ایل آر نائیک کی رپورٹ کو نافذ کیا جائے۔

آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کے ایک ذمہ دار نے کہا کہ آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ ہندوستان کے آئین میں دیے گئے قواعد کے مطابق ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ اس تنظیم کی ضرورت اس لیے پڑی کہ ہندو مسلم   سیاست  نے ملک و سماج کو تباہ کردیا ہے۔ لفظ مسلم کو سیاست داں وقت کے مطابق بیچتے اور خریدتے ہیں۔اسی کمزوری کو ختم کرنے کے لیےآل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ  قیام عمل میں آیا۔

آج 25 جون 2022 کوآل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کی جانب ایک پریس کانفرنس قومی دارالحکومت نئی دہلی میں واقع انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ہوئی۔ اس پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے آل انڈیا مسلم پسماندہ محاذ نے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم پسماندہ طبقہ کو اوپر اُٹھانے کی کوشش کریں کیوں کہ وقت نے انہیں کافی پیچھے کر دیا ہے۔آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کے مختلف ذمہ داران و عہدے داران نے الگ الگ باتیں کہیں جو یہاں درج کی جاتی ہیں۔

  سنور علی نے کہا کہ پسماندہ کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔سماج میں جو بھی کمزور ہے، اس کو اوپر اٹھانا، ان کو حق دلانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں پسماندہ کے بارے میں نوجوانون کو بتانا ہے۔ ان میں بیداری پیدا کرنی ہے، کیوں نوجوان پسماندہ کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔

یوسف انصاری  نے کہا کہ پسماندہ طبقات کو اوپر اٹھانے کے لیے ہمیں اپنا ہدف طے کرنا چاہئے، اس کو حاصل کرنے کے لیے طریق کار کیا ہو، اس پر بھی توجہ دینی چاہئے۔نیز ہم نے جو ہدف کے لیے پلاننگ کی اس پرعمل در آمد ہو رہا ہے کہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر پسماندہ کے ارکان کو بھی جوابدہ ہونا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی کہ نہیں۔ بہت سی غیر ضروری تنظیمیں موجود ہیں جو ہمیں کمزور کر رہی ہیں۔ لوگوں کو تعلیم کی طرف لانا ہے۔ انہیں تعلیم لانا ہے۔ سماجی اصلاح کی جانب خاص قدم اٹھانا ہے۔ہندوستان اس وقت متحد ہوگا جب ہم ایک دوسرے کی چیزیں اپنائیں گے۔

یوسف انصاری نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے اندر بھی اصلاح کرنا ہے۔ ہمیں کیا ہے۔ اس کو سوچنے کی ضرورت ہے.ہم ایک غیر سیاسی تنظیم ہیں۔ ہم لوگوں کو زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ 

شعیب عالم ایڈووکیٹ  نے کہا کہ پسماندہ کو ہم بار بار پسماندہ بولتے ہیں۔ ہمارے اندر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اندر بیداری کی کی کمی ہے۔ جب انہیں بیدار کریں گے تو ان میں سمجھداری آئے گی۔ پسماندہ طبقہ قانونی طور پر سب سے زیادہ پریشان ہے۔ جو مالی طور مضبوط ہیں وہ کمزور کو نہیں دیکھ پاتے ہیں۔

پرویز حنیف، سرپرست پسماندہ سماج نے اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ اگر ہم لوگوں کے لیے کچھ کام نہیں کیا تو سب کچھ دفن ہو جائے گا۔  جو ماحول اس ملک میں ہے، اس کے مطابق ہم کو جمہوری سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

سنہ 1987 میں ریزرویشن ایکٹ آیا۔ اس کے بعد پسماندہ نے اپنی آواز بلند کرنی شروع کی۔ انہون نے کہا کہ ہندوستان میں 85 فیصد مسلمان پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اشرافیہ صرف 15 فصید ہے۔ ہمیں مزدور بچے نہیں پیدا کرنے چاہئے، بلکہ ہمیں انہیں ایک ذمہ دار شہری بنانا ہے، جب کہ غربت کی وجہ سے لوگ مزدور بن جاتے ہیں۔آپس میں رشتہ داریاں کرنے کی ضرورت ہے۔میرے قریبی رشتہ دار آٹھ برادری سے تعلق رکتھے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک نہیں ہیں اس لیے ہم کمزور ہیں۔ایک پسماندہ دوسرے کو ووٹ نہیں دے رہا ہے۔۔۔۔ ہم غلط فہمی میں جیں گے تو زندہ نہیں رہ پائیں گے۔

ضلعی اعتبار سے ہمیں تنظیم بناکر کام کرناہے۔  ہمیں منتخب لیڈران کو گالی نہیں دینا چاہیے، کورونا کال میں امت شاہ نے جو کام کیا وہ قابل ستائش ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے سوچھ بھارت ابھیان کے تحت ٹوائلٹ بنواکر دیا، مودی آباس بنایا گیا ، لوگوں کو گیس سلینڈر ملنے لگا ،جو کہ کسی بھی حکومت نہیں کیا تھا۔ اس لیے ہمیں جمہوری طرز پر منتخب لیڈران کو گالی نہیں دینی چاہئے۔

شیرین آزاد، خاتون نمائندہ نےاس موقع پر شرین نے کہا کہ ہم بات پسماندہ طبقے کو ابھارنے کی بات کر رہے ہیں اور یہاں ایک بھی خاتون نمائندہ موجود نہیں ہے۔جب کہ یہاں  خاتون کی نمائندگی ضروری تھی۔ خاتون کے خلاف سماج کے اندر جو دھارنا ہے، اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب خاتون کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں ہیں اور نہ وہ کسی بھی اعتبار سے کمزور ہیں۔

اس موقع پر آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کی ویب سائٹ(https://www.pasmandamuslimmahaz.org/) شروع کا افتتاح بھی عمل میں آیا۔ نیزپسماندہ طبقے سے متعلق اردو زبان میں ایک ماہنامہ رسالہ شائع کرنے کی بھی بات کی گئی۔

 اس  موقع پرآل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ کی جانب سے شارق ادیب انصاری عبوری صدر بنایا گیا۔ جب کہ دہلی پردیش کا صدر ایڈووکیٹ شعیب عالم کو بنایا گیا۔ اس تنظیم سے وابستہ مختار انصاری، محمد یونس، پرویز حنیف، نور العین، وقار احمد ، شارق ادیب انصاری، وسیم احمد رائنی، شمیم انصاری، زاہد تاجم، اکبر علی، شجاعت حسین انصاری، احتشام انصاری، نصرالدین انصاری، خورشید انصاری، وسیم صدیقی، سنور علی قریشی، شرین آزاد وغیرہ موجود تھے۔