رام پور: سماج وادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خان بدھ کے روز جیل سے رہائی کے بعد پہلی بار اپنے گھر سے باہر نکلے۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے ملاقات کی اور میڈیا سے گفتگو کی۔ طویل عرصے بعد عوامی پلیٹ فارم پر واپسی کرتے ہوئے اعظم خان نے اپنے سیاسی مؤقف، سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو سے تعلقات، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) میں شمولیت کی قیاس آرائیوں اور اپنے خلاف درج مقدمات پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔
اعظم خان نے اکھلیش یادو کو بڑا لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا: "انہوں نے میرے بارے میں بات کرکے میرا حوصلہ بڑھایا، میں ان کا شکر گزار ہوں۔ اکھلیش میرے اتنے ہی قریب ہیں جتنے نیتاجی (ملائم سنگھ یادو) تھے۔" سابق وزیر نے جیل کی زندگی کو نہایت مشکل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا: "جیل میں رہنے سے زندگی بدل گئی ہے۔ یہاں تک کہ موبائل چلانا بھی بھول گیا ہوں۔ مجھے اپنی بیوی کا نمبر یاد تھا، وہ بھی بھول گیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ جیل کے دوران کئی بڑے لیڈر ان سے ملنے نہیں آئے تو اعظم خان نے جواب دیا: میرے دل میں کسی کے لیے ناراضگی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سب خوش اور آباد رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "پہلے جو لوگ مجھے نہیں جانتے تھے، اب درج مقدمات کی وجہ سے سب جاننے لگے ہیں۔
بی ایس پی میں جانے کی خبروں پر انہوں نے دو ٹوک جواب دیا: ہمارے پاس کردار نام کی ایک چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے پاس کوئی عہدہ یا منصب ہے۔ لوگ ہمیں محبت دیں، عزت دیں اور یہ ثابت ہو کہ ہم بکنے والے نہیں ہیں، یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ انہوں نے سابق رکن پارلیمان ایچ ٹی حسن کے حوالے سے کہا: جب میں اپنے آدمی کو ٹکٹ نہیں دلوا سکا تو کسی اور کا ٹکٹ کیسے کٹوا سکتا ہوں؟
اپنے خلاف درج مقدمات پر بات کرتے ہوئے اعظم خان نے کہا: اگر ان مقدمات میں کوئی وزن ہوتا تو آج میں باہر نہ ہوتا۔ چھوٹی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک مجھے انصاف کی امید ہے۔ ایک دن ضرور بے داغ ثابت ہو جاؤں گا۔ انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ جیل جانے کے بعد ان کی زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ ان کا کہنا تھا: اب میں نئی سوچ اور نئے نظریے کے ساتھ آگے بڑھوں گا۔
سماج وادی پارٹی کے رہنما اعظم خان کے خلاف درج دشمن کی جائیداد کے مقدمے کی سماعت بدھ کے روز گواہ کی غیر حاضری کے باعث ملتوی کر دی گئی۔ اب اس مقدمے کی سماعت یکم اکتوبر کو ہوگی۔ یہ مقدمہ 2019 میں تھانہ اعظم نگر میں درج کیا گیا تھا، جس کی شکایت لکھنؤ کے رہائشی علامہ ضمیر نقوی نے کی تھی۔
الزام کے مطابق لکھنؤ کے امام الدین قریشی تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے تھے۔ ان کی جائیداد کو حکومت نے دشمن کی جائیداد قرار دیا تھا۔ تاہم، ریونیو ریکارڈ میں ان کی جائیداد رامپور میں بھی درج تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ لکھنؤ کے رہنے والے تھے تو رامپور میں ان کے نام پر جائیداد کس طرح درج کی گئی۔
الزام ہے کہ اعظم خان نے اس جائیداد کو جوہر یونیورسٹی میں شامل کرنے کے لیے اپنے خاندان، وقف بورڈ کے عہدیداروں اور ملازمین کی ملی بھگت سے جعلسازی کی۔ اس مقدمے میں اعظم خان کے علاوہ ان کی اہلیہ اور سابق رکن پارلیمان ڈاکٹر تزئین فاطمہ سمیت دیگر افراد بھی ملزم ہیں۔ تاہم، گواہ کے نہ آنے کی وجہ سے سماعت مؤخر ہو گئی۔