واشنگٹن/تہران — امریکہ نے ایران پر تازہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن کے تحت 35 سے زائد ایرانی افراد اور اداروں کو منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت اور ممنوعہ سرگرمیوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد ایران کے غیر قانونی مالیاتی نیٹ ورک کو محدود کرنا ہے۔
ان پابندیوں کی زد میں آنے والوں میں دو ایسی کمپنیاں بھی شامل ہیں جنہیں ایران کی قومی آئل ٹینکر کمپنی سے منسلک قرار دیا گیا ہے۔ امریکی دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول نے ان اداروں کو "خصوصی طور پر نامزد شہریوں" کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کے امریکہ میں موجود تمام اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔
ایران نے ان اقدامات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔ وزارت خارجہ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر جاری بیان میں کہا گیا کہ یہ پابندیاں نہ صرف ایرانی عوام بلکہ پوری مسلم دنیا کے خلاف امریکہ کی معاندانہ پالیسیوں کا ثبوت ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق پابندیوں کا ہدف ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس نے ایرانی ایکسچینج ہاؤسز اور بین الاقوامی فرنٹ کمپنیوں کے ذریعے اربوں ڈالر کی غیر قانونی ترسیلات کے ذریعے ایران کے دہشت گرد نیٹ ورکس کی مالی مدد کی۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ یہ سرگرمیاں عالمی امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔یہ کارروائی صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ قومی سلامتی میمورنڈم کے بعد ایران کے "شیڈو بینکنگ سسٹم" کے خلاف پہلا بڑا قدم ہے۔ پابندیوں کا دائرہ متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ میں موجود ایرانی شخصیات اور اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان ایک نئے جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ رواں برس اپریل سے عمان کی ثالثی میں دونوں ممالک کے درمیان پانچ دور کی بات چیت ہو چکی ہے، مگر یورینیئم افزودگی کے معاملے پر تعطل برقرار ہے۔ امریکہ اس پر مکمل پابندی چاہتا ہے جبکہ ایران اسے اپنا خودمختار حق قرار دیتا ہے۔صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو واشنگٹن دیگر آپشنز، بشمول فوجی کارروائی، پر غور کر سکتا ہے۔
دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے مصری ٹی وی چینل ’النیل للاخبار‘ کو انٹرویو میں کہا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ان کے بقول، "ہمارا دینی عقیدہ اور رہبر انقلاب اسلامی کا فتویٰ ایٹمی اسلحہ کو حرام قرار دیتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں-انہوں نے مزید کہا کہ ایران پرامن جوہری پروگرام کو شفاف طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنے اور اعتماد سازی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے
یاد رہے کہ 2015 میں ایران نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے ساتھ ایک تاریخی جوہری معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس کے ایٹمی پروگرام کو محدود کر کے اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔ تاہم 2018 میں صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس کے بعد ایران نے بھی معاہدے کی اہم شقوں پر عملدرآمد روک دیا