انتہا پسندی کا مقابلہ انفرادی طور پر کرنے کی ضرورت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-12-2021
انتہا پسندی کا مقابلہ انفرادی طور پر کرنے کی ضرورت
انتہا پسندی کا مقابلہ انفرادی طور پر کرنے کی ضرورت

 

 

 عبدالحئی خان، نئی دہلی

 دنیا میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی، دہشت گردی اور علاقائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر شخص کو ذاتی اور انفرادی طور پر آگے آنا چاہئے۔ یہ خیال آج کے سیمینار میں آج کے مقررین نے پیش کیا، جس کا موضوع تھا، انتہا پسندی عالمی تعمیر کے لیے خطرہ۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف میجنمٹ روہتک کی جانب سے دو روزہ بین الاقوامی اجلاس کے آج پہلے دن جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا محمود مدنی، ہندوستان میں سری لنکا کے سفیر ملیندامورا گوڈا، ڈینمارک کے سفیر فریڈاسوانے اور سرکردہ صحافی و انگریزی روزنامہ ایشین ایج کے سابق ایڈیٹر ایم جے اکبر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

مولانا محمود مدنی نے عالمی سطح پر پھیلی ہوئی انتہا پسندی کے تناظر میں کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک رہا ہے، جہاں ہزاروں سال سے ساری قومیں اتحاد، امن اور پیار و محبت کے ساتھ زندگی گزارتی رہی ہیں۔

آج اپنے اپنے مذہب کو برا اور بھلا کہنے والے ہی نظر آتے ہیں، وہ لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں جو امن و سلامتی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا رہے ہیں۔ بہرحال حکومتوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ قانون کے ذریعہ کیسے کریں گی؟ جب کہ کوئی بھی مذہب انتہا پسندی اور تشدد پسندی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

مولانا نے کہا کہ پاکستان ہو افغانستان یہاں کے حالات کو سمجھنا چاہئے اور جہاد کا صرف ایک ہی مطلب نہین نکالا جانا چاہئے۔ جہاد کو اسلام سے صرف تشدد کے لیے جوڑنا غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذہب کا استعمال سیاسی لوگوں کو قطعی نہیں کرنا چاہئے۔ آج مذہب کا استعمال یہ کہہ کر کیا جا رہا ہے کہ اسلام خطرہ میں ہے یا ہندوازم خطرہ میں ہے۔ جو بالکل غلط ہے، ایسا کہنے والے مذہب کا استعمال کرکے ذاتی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب یہ کام سوسائٹی کا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد غلط لوگوں کے ناپاک عزائم سے دوسروں کو واقف کرائیں۔

ہندوستان میں سری لنکا کے سفیر ملیندا موڑا گوڑا نے کہا کہ انتہا پسندی آج دنیا کے زیادہ تر حصوں میں پھیل چکی ہے۔ جس کی حالیہ مثال پاکستان میں سری لنکا کے ایک باشندہ کو مار مار ہلاک کرنے کے واقعہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ انہون نے مزید کہا کہ اگر ایسے واقعات ہوتے رہے تو دنیا میں امن برقرار رہنا مشکل ہے اور ایک دوسرے کے تئیں نفرت کا دائرہ بڑھتا ہی جائے گا۔

awwwwwaz

سیمینار میں موجود شرکا

ڈین مارک کے سفیر فریڈا سوانے نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہر شخص کو ذاتی طورپر اٹھنا ہوگا۔ اور انہتا پسندی سے لوگوں کو واقف کرانا ہوگا کیوں کہ اب یہی ایک راستہ باقی ہے۔  دوسری جانب سیاست داں اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر نبھائیں جس سے ہر شخص کو جینے کا حق ملے۔ اور وہ جمہوریت کا اصل فائدہ سمجھ سکے۔ اب ہمیں کسی کی طرف دیکھنا نہیں چاہئے۔ ہم خود اپنی حکومت ہیں۔ ہم سکون کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ہمیں ایک انسان کی طرح زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔

سینیر صحافی ایم جے اکبر نے کہا کہ آج دنیا میں اکثر ممالک اور خطے دہشت گردی سے دوچار ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک میں طالبان کی پرورش ہوئی ہے۔ خود مرحومہ بے نظیر بھٹو نے انہیں پناہ دی تھی۔ انہیں طالبان نے افغانستان میں جنگ اور ہتھیاروں کے ذریعہ حکومت قائم کی ہے۔ ایسی حالت میں جو حکومت طاقت سے قائم کی گئی ہو، اسے کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔