نئی دہلی:انتخابی اصلاحات کے ادارے ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے ایک تجزیے کے مطابق ملک کے تقریباً 47 فیصد وزراء نے اپنے خلاف فوجداری مقدمات درج ہونے کا اعتراف کیا ہے، جن میں قتل، اغوا اور خواتین کے خلاف جرائم جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔
یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں تین بل پیش کیے ہیں، جن میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ سنگین فوجداری الزامات میں گرفتاری کے بعد 30 دن تک حراست میں رہنے والے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزراء کو عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ اے ڈی آر نے 27 ریاستی اسمبلیوں، تین مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور مرکزی کابینہ کے 643 وزراء کے حلف ناموں کا مطالعہ کیا اور پایا کہ ان میں سے 302 وزراء (47 فیصد) کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ان 302 وزراء میں سے 174 پر سنگین فوجداری مقدمات ہیں۔ تجزیے کے مطابق، بی جے پی کے 336 وزراء میں سے 136 (40 فیصد) نے اپنے خلاف فوجداری مقدمات درج ہونے کا اعلان کیا ہے اور 88 (26 فیصد) پر سنگین الزامات ہیں۔ کانگریس کی حکمرانی والی چار ریاستوں میں پارٹی کے 45 وزراء (74 فیصد) کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں، جن میں سے 18 (30 فیصد) سنگین جرائم کے ملزم ہیں۔
دراوڑ منیتر کژگم (DMK) کے 31 وزراء میں سے 27 (87 فیصد کے قریب) پر فوجداری الزامات ہیں، جبکہ 14 (45 فیصد) پر سنگین مقدمات ہیں۔ ترنمول کانگریس کے بھی 40 میں سے 13 وزراء (33 فیصد) پر فوجداری مقدمات ہیں، جن میں سے 8 (20 فیصد) پر سنگین الزامات ہیں۔ تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جس کے 23 میں سے 22 وزراء (96 فیصد) پر فوجداری مقدمات ہیں اور 13 (57 فیصد) پر سنگین فوجداری مقدمات ہیں۔
عام آدمی پارٹی کے 16 میں سے 11 وزراء (69 فیصد) پر فوجداری مقدمات ہیں، جبکہ 5 (31 فیصد) پر سنگین الزامات ہیں۔ قومی سطح پر مرکزی کابینہ کے 72 وزراء میں سے 29 (40 فیصد) نے اپنے حلف ناموں میں فوجداری مقدمات ظاہر کیے ہیں۔ آندھرا پردیش، تمل ناڈو، بہار، اڑیسہ، مہاراشٹر، کرناٹک، پنجاب، تلنگانہ، ہماچل پردیش، دہلی اور پڈوچیری میں 60 فیصد سے زیادہ وزراء پر فوجداری مقدمات درج ہیں۔
اس کے برعکس، ہریانہ، جموں و کشمیر، ناگالینڈ اور اتراکھنڈ کے وزراء نے اپنے خلاف کوئی مقدمہ نہ ہونے کی اطلاع دی ہے۔ اے ڈی آر نے اپنی رپورٹ میں وزراء کی مالی اثاثوں کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ اس کے مطابق، وزراء کے اوسط اثاثے 37.21 کروڑ روپے ہیں، جبکہ تمام 643 وزراء کے مجموعی اثاثے 23,929 کروڑ روپے ہیں۔ 30 ریاستی اسمبلیوں میں سے 11 میں ارب پتی وزراء ہیں۔ کرناٹک میں سب سے زیادہ 8 ارب پتی وزراء ہیں، اس کے بعد آندھرا پردیش میں 6 اور مہاراشٹر میں 4 ہیں۔ اروناچل پردیش، دہلی، ہریانہ اور تلنگانہ میں دو، جبکہ گجرات، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش اور پنجاب میں ایک ایک وزیر ارب پتی ہے۔
مرکزی کابینہ میں بھی 72 وزراء میں سے 6 (8 فیصد) ارب پتی ہیں۔ پارٹی کے حساب سے، بی جے پی کے 14 ارب پتی وزیر ہیں، لیکن یہ صرف 4 فیصد بنتے ہیں۔ کانگریس دوسرے نمبر پر ہے، جس کے 61 وزراء میں سے 11 (18 فیصد) ارب پتی ہیں، جبکہ ٹی ڈی پی کے 23 میں سے 6 وزراء (26 فیصد) ارب پتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی، جن سی نا پارٹی، جنتا دل (سیکولر)، این سی پی اور شیو سینا میں بھی ارب پتی وزراء ہیں۔
ملک کے سب سے امیر وزیر ٹی ڈی پی کے ڈاکٹر چندر شیکھر پماسانی ہیں، جو آندھرا پردیش کے گنٹور سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ انہوں نے 5705 کروڑ روپے سے زیادہ کے اثاثے ظاہر کیے ہیں۔ کرناٹک کانگریس کے رہنما اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیو کمار 1413 کروڑ روپے سے زائد کے اثاثوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، جبکہ ٹی ڈی پی کے سربراہ اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندر بابو نائیڈو کے پاس 931 کروڑ روپے سے زیادہ کی جائیداد ہے۔
سرفہرست 10 امیر وزراء میں آندھرا پردیش کے نارائن پونگورو اور نارا لوکیش، تلنگانہ کے گڈم ویویکانند اور پونگولٹی سرینواس ریڈی، کرناٹک کے سریش بی ایس، مہاراشٹر کے مَنگل پر بھات لوڈھا اور مرکزی وزیر جوتی راجتیہ سندھیا شامل ہیں۔ دوسری طرف، کچھ وزراء نے اپنی انتہائی قلیل جائیداد ظاہر کی ہے۔
تریپورہ کی انڈیجینس پیپلز فرنٹ کے شکلہ چرن نوآتیا نے صرف 2 لاکھ روپے کے اثاثے ظاہر کیے، جبکہ ترنمول کانگریس کے رہنما اور مغربی بنگال کے وزیر بیر بہا ہنسدا نے صرف 3 لاکھ روپے سے کچھ زیادہ کے اثاثے ظاہر کیے۔ اے ڈی آر نے کہا کہ حلف ناموں میں درج فوجداری مقدمات کی صورتحال 2020 اور 2025 کے درمیان انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کو جمع کرائے جانے کے بعد بدل بھی سکتی ہے۔