نئی دہلی: نیشنل ہیرالڈ کیس میں کانگریس لیڈر سونیا گاندھی کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے جمعہ کو عدالت میں دلیل دی کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کا یہ معاملہ حقیقت میں انتہائی عجیب و غریب اور بے مثال ہے۔ انہوں نے کہا، یہ معاملہ صرف عجیب ہی نہیں بلکہ نہایت انوکھا ہے۔
اسے منی لانڈرنگ کا کیس کہا جا رہا ہے، لیکن اس میں نہ کوئی جائیداد ہے، نہ اس کا استعمال یا کوئی فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ ای ڈی نے کانگریس لیڈران سونیا گاندھی، راہل گاندھی، مرحوم کانگریسی لیڈر موتی لال وورا، آسکر فرنانڈس، سمن دوبے، سیم پترودا اور ایک نجی کمپنی "ینگ انڈین" پر منی لانڈرنگ اور سازش کے الزامات عائد کیے ہیں۔ الزام ہے کہ ان سب نے مل کر ’’ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ‘‘کی دو ہزار کروڑ روپے سے زائد کی جائیداد پر دھوکہ دہی سے قبضہ کیا۔
یہ وہی کمپنی ہے جو ’’نیشنل ہیرالڈ‘‘ اخبار شائع کیا کرتی تھی۔ دعویٰ ہے کہ ’’ینگ انڈین‘‘ نے محض 90 کروڑ روپے کے قرض کے بدلے اے جی ایل کی مکمل جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ عدالت میں دورانِ سماعت ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا، ’’ہر کمپنی کو قانونی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے نجات حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے، ہم نے بھی وہی کیا۔ ہم نے اے جی ایل کا قرض ’ینگ انڈین‘ کو منتقل کیا تاکہ اے جی ایل قرض سے آزاد ہو جائے۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ینگ انڈین‘ ایک غیر منافع بخش کمپنی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ منافع، نہ بونس، نہ تنخواہ اور نہ ہی ڈیویڈنڈ تقسیم کر سکتی ہے۔ سنگھوی نے مزید کہا کہ ای ڈی نے کئی برسوں تک اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی، اور اچانک ایک نجی شکایت کی بنیاد پر کار روائی شروع کر دی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ سب افراد کانگریس سے جڑے ہوئے ہیں۔
اگر نیشنل ہیرالڈ کسی غیر کانگریسی ادارے کے ہاتھ چلا جائے تو یہ بالکل ایسے ہوگا جیسے 'ہیم لیٹ' ڈرامے میں ڈنمارک کا شہزادہ ہی نہ ہو۔‘‘ ای ڈی کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے 3 جولائی کو عدالت میں کہا کہ گاندھی خاندان ’ینگ انڈین‘ کمپنی کے فائدہ اٹھانے والے مالک ہیں، اور دیگر حصص داروں کی موت کے بعد انہوں نے کمپنی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
ای ڈی نے گاندھی خاندان سمیت دیگر کے خلاف ’’منی لانڈرنگ قانون‘‘ کی دفعہ 3 (منی لانڈرنگ کی تعریف) اور دفعہ 4 (سزا سے متعلق) کے تحت چارج شیٹ داخل کی ہے۔ اس چارج شیٹ میں سونیا گاندھی، راہل گاندھی، سمن دوبے، سیم پترودا، سنیل بھنڈاری، ینگ انڈین اور ڈوٹیکس مرچنڈائز پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام شامل ہیں۔ عدالت اب یہ طے کرے گی کہ چارج شیٹ پر باقاعدہ نوٹس لیا جائے یا نہیں۔ اس معاملے کی اگلی تاریخ جلد طے کی جائے گی۔