اردو دنیا کو’ بے رنگ ‘ کر گئے نا رنگ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-06-2022
اردو دنیا کو بے رنگ کر گئے نا رنگ
اردو دنیا کو بے رنگ کر گئے نا رنگ

 

 

 منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

اردو دنیا میں اداسی ہے ۔بات صرف ہندوستان کی نہیں ،سرحد کے اس پار اور اس پار اہل اردو افسردہ ہیں ۔دنیا کے ہر کونے میں جہاں اردو ہے وہاں مایوسی ہے کیونکہ ہندوستان کے ممتاز اردو نقاد اور ماہر تعلیم پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کل امریکہ میں اپنی آخری سانس لی ۔اب اردو دنیا میں سناٹا ہے۔ اردو دنیا  ایک اہم ستون سے محروم ہوچکی ہے۔ اہل اردو اس ناقابل تلافی نقصان پر اظہار افسوس کررہے ہیں۔

جس انسان کو بر صغیر میں اردو کا مسیحا کہا جاتا تھا ،ان کی اردو زبان و ادب سے دلی وابستگی کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جاسکتا تھا کہ ۔۔۔ ’’"میرا سفرِ اُردو سفرِ عشق ہے۔ عشق اِثباتِ خودی کی نہیں تسلیمِ خودی کی راہ ہے جس میں 'لین' کچھ نہیں، 'دین ہی دین' ہے اور میں نے تو دیا کچھ بھی نہیں، میری بساط ہی کیا ، اور لے لیا کتنا کچھ۔ یہ کسر نفی نہیں کہ میری پہچان جو بھی اور جیسی بھی ہے اردو کی بدولت ہے۔ یہ اردو کی فیاضی نہیں تو کیا ہے کہ میں کچھ بھی نہ دے سکا اور اس نے مجھے اتنا کچھ دیا کہ کسی کو بھی کسی نے کیا دیا ہوگا۔‘‘ ۔

گوپی چند نارنگ  نے اردو کی 400 سالہ فکری اور تہذیبی تاریخ کو اپنی تحقیق اور تنقید کا موضوع بنایا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ چونسٹھ کتابوں کے مصنف تھے ان کتابوں میں پینسالیس اردو میں، بارہ انگریزی میں اور سات ہندی میں لکھی گئی ہیں۔ ان کی موت پر ملک کےممتاز دانشوروں اور صحافیوں نے اس کو بڑا نقصان قرار دیا ہے۔

انگلش کے سہارے اردو کو دوسروں تک پہچایا۔ پروفیسر اختر الواسع

  ملک کے ممتاز دانشور اور اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے کہا  ہے کہ نارنگ صاحب کی موت اردو دنیا کو بے سہارا کرگئی۔ وہ اردو کی ایسی مشعل تھے جو دنیا کے کونے کونے میں اردو کو روشن کررہی تھی۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اردو کی خدمت کی،زبان کے محافظ ثابت ہوئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو ان کی مادری زبان  بھی  نہیں تھی  اس کے باوجود ان کا اردو سے پیار ناقابل بیان رہے گا۔ انہوں نے ایک ماہر لسانیات کی حیثیت سے زبردست خدمات انجام دی ہیں ۔اردو کے منظر نامہ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ گوپی چند نارنگ ان لوگو ں میں سے تھے جنہوں نے اردو زبان کو انگلش کے سہارے دوسروں تک پہنچایا۔دنیا کے کونے کونے میں اردو کو فروغ دیا۔

انہوں نے پروفیسر نارنگ کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک اردو داں کی حیثیت سے ایک ایسے وقت ساہتہ اکاڈمی میں نائب صدد اور صدر کےلیے  منتخب ہوئے جب اردو کے لیے ملک میں حالات بہتر نہیں تھے۔ یہ کامیابی غیر معمولی تھی۰۔اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں اول تو زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ،ہر مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زبان رابطہ کے لیےہوتی ہے  نہ کہ تنازعہ یا ٹکراو کے لیے۔ انہیں ساہتہ اکاڈمی میں ہر زبان اور ہر مذہب کے لوگوں نے پہلی پسند مانا تھا۔یہ بھی ملک کی خوبصورتی کو بیان کرتی ہے۔

پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہا کہ  میری پروفیسر نارنگ سے پہلی ملاقات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  میں ہوئی تھی جبکہ اس کے بعد جب میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بحثیت لیکچرر جوائن کیا تو پروفیسر نارنگ نہ صرف اردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ  بلکہ ڈین بھی تھے اور جس پینل نے میرا سلیکشن کیا تھا اس میں بھی شامل تھے۔پروفیسر اخرالوسع  نے مزید کہا کہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک دلچسپ تاریح رقم ہورہی تھی۔ اردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تو پروفیسر نارنگ تھے اور ہندی ڈیپارٹمنٹ کے مجیب رضوی ہیڈ تھے۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے کہ بس دل چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں  اور ہم سنتے رہیں ۔

 جہاں اردو تھی  وہاں نارنگ  تھے۔ پروفیسر خالد محمود

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شبعہ اردو کے سابق ہیڈ پروفیسر خالد محمود نے گوپی چند نارنگ کی موت کو اردو دنیا کے لیے ایک بڑا اور ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ  نارنگ صاحب کی موت نے اردو دنیا میں سنا ٹا کردیا ہے ایک شگفتہ ،شاداب  اور محرک عہد کا خاتمہ ہوگیا ۔

پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے ۔ وہ اتنی بڑی شخصیت تھےکہ  اردو دنیا کا ہر فرد افسردہ ہے کیونکہ نارنگ صاحب نے اردو سے محبت نہیں عشق کیا تھا۔ان کا ہر پل اردو کے لیے تھا۔یہ زندگی بھر کا عشق تھا۔جس میں انہوں نے ہمیشہ اردو کا سر بلند رکھا۔اردو کا فخر بنے اور اردو کو اتنا دیا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔

پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ  آج ہر زبان کو ایک نارنگ کی ضرورت ہے ،جس زبان میں نارنگ ہو ،اس کا سر کبھی نہیں جھک سکتا۔انہوں نے نہ صرف اردو سے عشق کیا بلکہ اردو کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں ۔اس کو نئی بلندی دی اور زبان کی حیثیت کا لوہا منوایا۔

پروفیسر خالد محمود نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شبعہ اردو کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک واقعہ مجھے یادہے کہ جب ایک روم میں دیوار پر کلینڈر لٹکانے کے لیے کیل ٹھونکنے کے لیے ایک ملازم آیا تو پروفیسر نارنگ صاحب اس کے ساتھ کھڑے رہے۔پہلے منا سب جگہ کا انتخاب کیا اور پھر اس سے کہا کہ کیل اس طرح ٹھونکنا کہ پلاسٹر نہ خراب ہو۔ میں ان کے چہرے پر ایسی فکر دیکھی گویا کیل اردو ڈیپارٹمنٹ کی دیوار پر نہیں بلکہ ان کے جسم ھر ٹھونکی جارہی ہو۔

پروفیسر خالد محمود نے مزید کہا کہ نارنگ صاحب اردو زبان پر اللہ کا احسان تھے۔ایسے لوگ بار بار نہیں پیدا ہوتے۔ان کی جدائی ناقابل تلافی ہے۔ اس سے قبل پروفیسر شمس الرحمان فاروقی کے انتقال نے اردو کو ایک بڑا نقصان پہنچایا تھا ،اب نارنگ صاحب کی موت نے مزید توڑ کر رکھ دیا ہے۔

پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے۔جن پر اردو والے جتنا فخر کریں کم ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں غالب انسی ٹیوٹ میں  ایک پروگرام ہوا تھا تو اس میں نارنگ صاحو امریکہ سے آن لائن رہے تھے۔ انہوں نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک اپنی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی تھی۔ ہمیں ان کو دیکھ اور سن کر بہت خوشی ہوئی تھی ۔ہمیں نہیں لگاتھا کہ انہیں اتنی جلدی کھو دیں گے۔ان کے اعتماد اور قابلیت کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ نارنگ صاحب اردو کی شان تھے،انہوں نے عشق اردو میں اپنی زندگی گزاری اور آخری سانس تک اردو کی خدمت کی۔ میں انہیں ایک ناقابل فراموش شخصیت مانتا ہوں ۔جنہوں نے ہر پل اور ہر قدم پر اردو کو کچھ نہ کچھ دیا ہے۔

 وہ مشرقی تہذیب کے امین تھے۔ شیخ عقیل احمد

کاونسل فار پروموشن  آف  اردو  لینگویج کے ڈائریکٹر شیخ  عقیل احمد نے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی موت ایک بڑا اور ناقابل تلافی خسارہ ہے ۔یہ اردو دنیا کے لیے سب سے بری خبر ہے۔ کیونکہ نارنگ صاحب کو ہم مشرقی تہذیب اور روایات کا امین مانتے تھے۔نیشنل

انہوں نے کہا کہ  بلاشبہ نارنگ صاحب  ایک بین الاقوامی شخصیت تھے ۔ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے اور ہر پہلو کے اعتبار سےمکمل  شخصیت  کے مالک تھے۔

 ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ نارنگ صاحب کا  مابعد جدیدیت کا نظریہ ایک بڑی کامیابی ہے ۔انہوں نے اردو ادب میں اس نئے نظریئے کو متعارف کرایا۔دنیا میں ایک بڑے طبقہ نے ان کے نظریئے کو سلام کیا اور اس کی پیروی کی۔

انہوں نے کہا کہ نارنگ صاحب نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ فارسی اور اردو کی  شعری روایت  بہت پرانی ہوچکی ہے جبکہ عربی  ادب سے مغرب نے فائدہ اٹھا کرمختلف تھیوریز کو اپنے نام کیا حالانکہ وہ

سب ہمارے یہاں پہلے سے موجود تھیں۔

 اردو زبان و ادب میں پروفیسرگوپی چند نارنگ کے خدمات کثیرالجہات ہیں۔ وہ نہ صرف ایک محقق ،مفکر اور مشہور دانشور ہیں بلکہ بہترین اور شہرت یافتہ نقاد بھی ہیں۔وہ اب کے بدلتے رجحانات سے باخبر ہونے کے ساتھ ان کو اپنانے اور ان پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتےرہے تھے۔

دنیا کے کونے کونے میں لے گئے اردو کو : پروفیسر آفتاب احمد

بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ہیڈ پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ گوپی چند نارنگ  اردو دنیا کے لیے ایک ستون کی حیثیت رکھتے تھے،ان کی موت  نے جو خلا پیدا کیا ہے اس کو پر کرنا مشکل ہوگا ۔لسانیات ،تنقید اور تحقیق پر ان کا جتنا کام ہے شاید ہی کسی کا ہو۔ان کے ان کاموں اور خدمات کو قیمتی اضافہ کے طور پرلینا چاہیے ۔انہوں نے فلسفہ ،تاریخ  اور تہذیب پر جتنی روشنی ڈالی شاید ہی کسی نے اتنا کام کیا ہو۔

 پروفیسر آفتاب آفاقی نے کہا کہ نارنگ صاحب کا ایک بڑا کارنامہ اردو کو ملک سے باہر لیجانے اور دنیا کے ایسے ممالک میں پھیلانا ہے جہاں اس وقت تک اردو کا وجود نہیں تھا ۔میں مانتا ہوں کہ ان کی موت کے ساتھ اردو ادب کی دنیا کا ایک باب ختم ہوگیا۔ بے شک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ نارنگ صاحب وہ شخصیت تھے جنہوں نے ایسے موضوعات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ  بیان کیا جنہیں اہل اردو نے بھاری پتھر سمجھ کر چھونے کی کوشش نہیں کی تھی۔

فن گفتگو کا جواب نہیں تھا۔ معصوم مرادآبادی

 ممتاز صحافی اور دانشور معصوم مراد آباد  نے نارنگ کی موت کو اردو دنیا کا سب سے بڑا غم قرار دیا۔  انہوں نے کہا کہ بلاشبہ ان کی شخصیت اور کارنامے ہی ایسے تھے کہ پوری اردو دنیا ان کی معترف تھی۔ وہ ایک محقق، نقاد اور ادیب ہی نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت اردو کے ایک سفیر کی بھی تھی۔ مادری زبان اردو نہ ہونے کے باوجود انھوں نے اردو ادب کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا سب سے بڑا ہنر گفتگو کا فن تھا۔ وہ جس محفل اور مذاکرے میں شریک ہوتے وہاں اپنی گہری چھاپ چھوڑتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ ایک غیر ملکی سفر میں شریک ہونے کا موقع ملا اور بارہا ان سے گفتگو ہوئی۔ اس وقت ان سے متعلق بے شمار یادیں اور واقعات ذہن میں ابھر رہے ہیں لیکن اس وقت میں سفر میں ہوں۔ انشاءاللہ جلد ہی ان کی یادوں پر مشتمل ایک مضمون قلم بند کرنے کی کوشش کروں گا۔