نعت گوئی: غیرمسلم شعراکا اہم کردار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-10-2021
نعت گوئی: غیرمسلم شعراکا اہم کردار
نعت گوئی: غیرمسلم شعراکا اہم کردار

 

 

 یہ امر خوش گوار حیرت سے کم نہیں ہوگا کہ نعت گو شعرا کا دائرہ اثر صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، ایسے غیر مسلم شعرا سیکڑوں کی تعداد میں ہیں جنہوں نے آقائے دوجہاں ؐ کی بارگاہ میں نعت کی صورت گل ہائے عقیدت پیش کیے اور اُن کا کلام قبول عام قرار پایا۔

غیر مسلم شعرا کی نعتیہ شاعری ہمہ وقت چشم کشا بھی ہے اور رسول اللہؐ کے رحمت اللعالمین ہونے کی ایک کڑی بھی ۔ چشم کشا ان کیلۓ جو اپنے تعصب اور اپنی جھوٹی و چھوٹی انا میں قید رہ کر حضور اقدسؐ کی اصلیت اکملیت اور افضلیت سے کور چشم ہی رہے اور اپنی کج فہمی کی آڑ میں انہوں نے ایسے فطور کے انبار لگا دیے کہ اہل عقل ان کی حماقت کا رونا روتے رہے ۔

غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی کا دوسرا تابناک پہلوں یہ ہے کہ اس سے یہ بات سند پاتی ہے کہ آپؐ خالص رحمت اللمسلمین بلکہ رحمت اللعالمین ہیں ورنہ کیوں کوئی شخص ﷺجو آپؐ کا امتی بھی نہی آپؐ کی مدحت کرتا ۔ حضورؐ کی نعت و ثنا کا زمان مکان اخوان اور لسانی بندشوں کو توڑنا آپؐ کی ذات والا صفات کی آفاقیت کا ایک بین ثبوت ہے ۔ 

یوں تو اردو میں غیر مسلم نعت گو شعرا کی تعداد کئی سو تک پہنچتی ہے، لیکن نور میرٹھی نے جو کتاب ”بہ ہر زماں بہ ہر زباں“ مرتب کی، وہ بہت اہمیت کی حامل ہے، اس میں انہوں نے 336 ہندو شعرا کی نعتوں کو یک جا کیا ہے۔

قابل ذکر نعت گو اردو شعرا میں جگن ناتھ آزاد، جگن ناتھ کمال کرتار پوری، فراق گورکھپوری، دلو رام کوثری، آنند موہن زتشی، ستیا پال آنند، عرش ملسیانی، شنکر لال ساقی، ہری چند اختر، اشونی کمار اشرف، اوما شنکر شاداں، امر ناتھ آشفتہ دہلوی، برج نارائن کیفی، بالا سہائے متصدی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، بہادر برق، تربھون شنکر عارف، پربھو دیال رقم، تلوک چندر محروم، رویندر جین چاند بہاری لال ماتھر صبا، پیارے لال رونق، تربھون ناتھ دہلوی، چندر بھان خیال، چندی پرشاد شیدا،چندر پرکاش جوہر بجنوری، درگا سہائے سرور، دیا پرساد غوری، دیا شنکر نسیم لکھنوی، روپ چند، شگن چند جین روشن، شیو پرشاد وہبی لکھنوی، کرشن موہن، کشن پرشاد، گلزار دہلوی، گوہر دہلوی، لبھو رام جوش ملسیانی، لچھمی نرائن سخا، مکھن لال مکھن، مہر لال سونی ضیا، ہری مہتا ہری، مہندر سنگھ بیدی، نوبت رائے نظر شامل ہیں 

٭ دراصل عصر جدید میں پہلے غیر مسلم اہم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقی(1890) ہیں۔انہوں نے اردو و فارسی دونوں زبان میں اشعار کہے۔

 جیتے جی روضہ  اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا

روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہو گی

نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے

کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی

(محمد دین فوق،اذان تبکدہ ص 33-35)

٭مہاراجہ سرکشن پرشاد(م 1359ھ) پہلے معروف ہندو نعت نگار تھے جنہوں نے کثیر تعداد میں سے نعتِ رسول کہی۔آپ کے اشعار جذب و شوق اور حب رسول سے بھرے ہوئے ہیں ۔ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ کسی غیر مسلم کا کلام ہے۔آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری جمال کے بارے میں متعدد اشعار لکھے ہیں جن میں آپ کے زلف و عارض، خدوخال اور ابرو اقامت کے حسن کو تشبیہ اور استعارہ کی شکل میں پیش کیا ہے اور ان میں عربی الفاظ و تراکیب بھی ملتی ہیں۔آپ کا مجموعہ 200 صفحات پر مشتمل ہے۔ 

کافر ہوں کہ مومن ہوں خدا جانے میں کیا ہوں

پر بندہ ہوں اس کا جو ہے سلطانِ مدینہ

مدینہ کو چلو دربار دیکھو

رسول اللہ کی سرکار دیکھو

- (کشن پرشاد شاد،ہدیہ شادص92) ٭ دلو رام کوثری (1365ھ) بھی نعت گوئی میں بہت مشہور ہوئے۔برصغیر کے مشہور صوفی پیر جماعت علی شاہ نے آپ کی شاعری سے متاثر ہوکر آپ کو ’حسان الہند‘ کا لقب دیا تھا۔آپ نبی کریم کی محبت وشفقت اور حلم و درگزر سے بہت متاثر تھے اس لیے آپ نے انہیں ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جیسے

کچھ عشق محمد میں نہیں شرطِ مسلماں

ہے کوثری ہندو بھی طلب گارِ محمد

(محمد دین فوق،اذان تبکدہ ص24)

٭ عرش ملیسانی بھی صاحب دیوان نعت گو شعرا میں سے ہیں۔آپ کے مجوعہ کا نام’ آہنگ حجاز‘ ہے۔آپ کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ مسلم ہندو کے مخلوط معاشرے میں مذہبی تعصب سے اوپر اٹھ کر باہمی محبت و یگانگت کو فروغ دیا۔آپ کی شاعری میں نبی کی ذات سے عقیدت و محبت دلی تڑپ اور خلوص کی چاہت پائی جاتی ہے۔

جیسے

 تیرے عمل کے درس سے گرم ہے خونِ ہر بشر

 حسن نمود زندگی، رنگ رخ حیات نو

(عرش ملیسانی،آہنگِ حجاز ص۶) 

جب بات کرتے ہیں عصر حاضر کی تو متعدد نام اور چہرے سامنے آجاتے ہیں ۔

ان میں سے ایک فراق گورکھپوری اردو کے بڑے شاعر اور نقاد گزرے ہیں، جن کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ آپ کے والد منشی گورکھ پرشاد بھی شاعر تھے، اُن کا تخلص عبرت تھا۔ اُنہیں اردو شاعری کا بڑا نقاد بھی تصور کیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں اُنہوں نے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ فراق نے بھی نبی محترم کی شان میں کلام پیش کیا، اشعار ملاحظہ فرمائیے:

انوار بے شمار معدود نہیں

 رحمت کی شاہراہ مسدود نہیں

معلوم ہے تم کو محمدؐ کا مقام

 وہ امت اسلام میں محدود نہیں

 منشی شنکر لال ساقی 1820 میں سکندر آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ غالبؔ اور مومنؔ کے ہم عصر تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے مشاعروں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں آپ نے طبع آزمائی کی۔ آپ کے دل میں نبی محترم ﷺ کے لیے خاص عقیدت تھی، اس لیے آپ کی شان اقدس میں نعتیں لکھیں۔ آپ کے چند نعتیہ اشعار پیش کیے جارہے ہیں۔

 جیتے جی روضہئ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا

 روح جنت میں بھی ہوگی تو ترستی ہوگی

 نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے

 کیا مری ان کے مدح خوانوں میں ہستی ہوگی

تھی شب معراج میں سارے فلک پر چاندنی

نورِ محبوب خدا سے تھی منور چاندنی

عرش و کرسی پر کہاں تھا ماہ کا نام و نشاں

 روئے احمد چاند تھا، اس سے تھی یکسر چاندنی

کنور مہندر سنگھ بیدی، تخلص سحر تھا، 9 مارچ 1909 کو منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ آپ کثیر الجہات شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ 60 برس تک شاعری کی۔ ان تمام مشغلوں میں شاعری میں وہ کسی کے شاگرد نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حضرت محمد ﷺ اور اہل بیت کی شان میں بھی بہت عمدہ خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ کلام ملاحظہ فرمایئے

ہم کسی دین سے ہوں، قائلِ کردار تو ہیں

 ہم ثناء خوانِ شہِ حیدرِ کرارؓ تو ہیں

 نام لیوا ہیں محمدؐ کے پرستار تو ہیں

 یعنی مجبور پئے احمد مختار تو ہیں

 عشق ہوجائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں

ہری چند اختر 1901 میں ہوشیار پور پنجاب میں پیدا ہوئے۔ پندرہ سال کی عمر سے ہی شاعری کا شوق ہوا اور حفیظ جالندھری سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ شاعر ہونے کے ساتھ اچھے صحافی بھی تھے۔ آپ کی دو نعتیں ”ایک عرب“ اور ”سبز گنبد“ نبی محترم ﷺ سے گہری عقیدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں۔

سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیں

لیجیے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہم

یاالٰہی کس طرف کو ہے مرا عزمِ سفر

خضر کہتے ہیں کہ ساتھ آئیں ذرا سرکار ہم

نام پاک احمد مرسل سے ہم کو پیار ہے

 اس لیے لکھتے ہیں اختر نعت میں اشعار ہم

 جگن ناتھ آزاد 1918 کو عیسیٰ خیل میانوالی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی شاعری کی طرف میلان تھا۔ اُردو کے بڑے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آزاد نے بارگاہِ رسالت میں گل ہائے عقیدت نعتیہ شاعری کی شکل میں پیش کیے۔ آپ نے حضور ﷺ کی شانِ اقدس پر بہت کچھ لکھا۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے۔

سلام اس ذاتِ اقدس پر، سلام اس فخرِ دوراں پر

ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

 سلام اُس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا

رہا جو بے کسوں کا آسرا، مشفق غریبوں کا

 آنجہانی چیف جسٹس آف پاکستان رانا بھگوان داس کی منصف کی حیثیت سے ملک و قوم کے لیے بے شمار خدمات ہیں۔ وہ بااصول شخصیت کے مالک تھے اور نظام عدل کی بہتری، آئین و قانون کی سربلندی کی خاطر اُن کی کاوشیں کسی طور فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ وہ اسلام اور خصوصاً نبی محترم ﷺ سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لیے اُنہوں نے باقاعدہ قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی۔ اُن کی نعت پیش خدمت ہے۔

 جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی

دو عالم کی رونق تری خوش جمالی

خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انسان

 یہ سب کچھ ہے تری ستودہ خصالی

 تُو فیاضِ عالم ہے دانائے اعظم

مبارک ترے در کا ہر اِک سوالی

نگاہِ کرم ہو نواسوں ؑ کا صدقہ

 ترے در پہ آیا ہوں بن کے سوالی

میں جلوے کا طالب ہوں، اے جان عالم

 دکھادے، دکھادے وہ شانِ جمالی

 ترے آستانہ پہ میں جان دوں گا

نہ جاؤں، نہ جاؤں، نہ جاؤں گا خالی

تجھے واسطہ حضرتِ فاطمہؓ کا

 میری لاج رکھ لے دو عالم کے والیؐ

 نہ مایوس ہونا ہے یہ کہتا ہے بھگوانؔ

 کہ جودِ محمدؐ ہے سب سے نرالی

پنڈت دیا شنکر نسیم، چھنو لال دلگیر،پنڈت ہری چند اختر،گوپی ناتھ امن، نوبت رائے نظر، پنڈت برج موہن دتا، فراق گورکھپوری، اوم پرکاش، جگن ناتھ آزاد…ایک طویل فہرست ہے ہندو شعراء کی۔ نور میرٹھی نے ہندو نعت گو شعراء کی ایک کتاب مرتب کی جس کانام ’’بہ ہر زماں‘بہ ہر زبان‘‘ اس کتاب میں 326 غیر مسلم شعراء کا کلام موجود ہے۔

ان مخصوص شعراء کے علاوہ شعراء کی ایک وسیح تعداد نے رحمت اللعالمینؐ سے اپنی قلبی اور فکری وابستگی کا اظہار منظوم و منثور دونوں شکلوں میں کیا ۔ عصرِ حاضر میں جہاں مزہبی رواداری اور تجدید اخوت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے تو ان شعراء کی نہ صرف فکری بلکہ معنوی اہمیت بھی دوگونہ بڑھ جاتی ہے ۔

ان کا منہج کسی مصنوعی مفاہمت کی دعوت نہیں بلکہ قلوب و اذہان کے اس رویہ کی طرف دعوت ہے کہ جس میں انسان اپنی انا کو فنا کر کے حق کو پہچاننے اور سراہنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

ہو کہ سب سے بہتر نعت تو وہ ہے جو نوک قلم کے بجائے اسوہ رسول ﷺ پر عمل سے مترشح ہو۔