ترپورہ تشدد پر کیا کہتی ہےسپریم کورٹ کے وکلاء کی رپورٹ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
 ترپورہ تشدد پر کیا کہتی ہےسپریم کورٹ کے وکلاء کی رپورٹ
ترپورہ تشدد پر کیا کہتی ہےسپریم کورٹ کے وکلاء کی رپورٹ

 


 آواز دی وائس، نئی دہلی

 گذشتہ دنوں ریاست تریپورہ میں مختلف مقامات مبینہ تشدد کا واقعہ پیش آیا ہے، جس میں متعدد مساجد میں توڑ پھوڑ کے علاوہ مسلمانوں پربھی تشدد کے واقعات پیش آئے۔

سپریم کورٹ کے وکلا نے تریپورہ تشدد کی ایک فیکٹ فائنڈگ رپورٹ تیار کی ہے، اس رپورٹ کے مطابق ریاست تریپورہ میں 51 مقامات پر مسلمانوں کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ 12 مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔

تریپورہ تشدد پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے منگل کو انکشاف کیا کہ اگر بی جے پی حکومت چاہتی تو وہ تریپورہ میں مسلم اقلیت کے خلاف پہلے سے طے شدہ تشدد کو ناکام بنا سکتی تھی لیکن اس نے مبینہ طور پرشرپسندوں کو کھلا چھوڑ دیا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ریاست بھر میں کئی مقامات پر مسلمانوں پر حملے کیے گئے اور 12 مساجد کو توڑ پھوڑ اور نقصان پہنچایا گیا۔

تفصیلی حقائق پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ کا عنوان ہے:تریپورہ میں انسانیت پر حملہ(Humanity under Attack in Tripura)۔

تریپورہ کا دورہ کرنے والی ٹیم کے ممبران نے پریس کلب آف انڈیا میں اسے جاری کیا ہے۔

میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعہ کے بعد جس طرح کی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت چاہتی تو اس طرح کے خوفناک واقعہ کو ہونے سے بچا سکتی تھی۔

تحقیقاتی ٹیم نے متاثرہ فریقوں سے ملاقات کی اور تشدد سے متعلق معلومات اور حقائق اکٹھے کیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں پر حملوں کے واقعات پر تریپورہ میں 51 مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

مظاہروں پر تشدد شروع ہوا، املاک کو نذر آتش کیا گیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کردی گئی۔

مقامی مسلمانوں نے ٹیم کو بتایا کہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیاہے جس کا نتیجہ تشدد کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

پانیسانگر کے منور علی(72سال) نے ٹیم کو بتایا کہ تشدد کے دوران ہم نے مقامی بی جے پی ایم ایل اے ونے بھوشن داس کو 7-8 بار فون کیا۔ اس نے ایک بار فون اٹھایا اور کہا کہ وہ اگرتلہ میں میٹنگ میں ہیں۔

رپورٹ کےمطالبات

حکومت ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بنائے اور پورے واقعے کی تحقیقات کرائی جائے۔ متاثرین کی شکایت پر الگ ایف آئی آر درج کی جائے۔ جن لوگوں کے کاروبار کو مالی نقصان پہنچا ہے ان کو حکومت کی طرف سے معاوضہ دیا جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے خرچے پر تباہ ہونے والے مذہبی مقامات کو دوبارہ تعمیر کروائیں۔ اور تشدد کے امکان کے باوجود کوئی کارروائی نہ کرنے والے پولیس افسر کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

ریلی میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے نعرے لگانے والے افراد اور تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ریاست کا خوشگوار ماحول دوبارہ خراب نہ ہو۔

جھوٹے اور اشتعال انگیز پیغامات بنانے اور انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

 خیال رہےکہ تحقیقاتی ٹیم جلد ہی دہلی میں اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کرے گی اور یہ رپورٹ صدر جمہوریہ ہند، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، مرکزی داخلہ سکریٹری، اقلیتوں کے قومی کمیشن اور قومی انسانی حقوق کمیشن کو بھیجی جائے گی۔

تحقیقاتی ٹیم میں سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ احتشام ہاشمی، ایڈوکیٹ امیت سریواستو، ایڈوکیٹ انصار اندوری اور ایڈوکیٹ مکیش شامل ہیں ۔