مسلمانوں کو ضرورت ہے خود احتسابی کی:مولانا فضل الرحیم مجددی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-01-2022
مسلمان بری حالت میں ہیں، جائزہ لینے کی ضرورت: مولانا فضل الرحیم مجددی
مسلمان بری حالت میں ہیں، جائزہ لینے کی ضرورت: مولانا فضل الرحیم مجددی

 

 

 جے پور:مسلمانوں کے تمام شعبے میں زوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جامعہ ہدایت جے پور کے سربراہ اور عبدالرحیم ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیرمین مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہاکہ ہمیں شدت سے اس وقت یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم اس قدر برے حالات میں کیوں ہیں یہ بات انہوں نے گذشتہ دنوں انگلش میڈیم امام ربانی بپلک اسکول کی سالانہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہماری تعلیم و تمدن کا اس قدر جلوہ تھا کہ انگلینڈ کے بادشاہ جارج ثانی نے اپنے خاندان کی بچیوں کو ترکی کے خلیفہ کے پاس بھیجا تھا تاکہ وہ وہاں کی تہذیب و ثقافت سیکھ سکے جو اس وقت وہاں رائج تھی۔

انہوں نے کہاکہ جو قوم اس وقت اتنے عروج پر تھی اور اس کے معیار اتنے بلند تھے وہ آخر اس قدر ہر شعبے میں نیچے کیوں گرگئی۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے تمام شعبے میں اعلی معیار کے ماہر افراد پیدا کئے اس کے باوجود یہ قوم پسماندہ کیسے ہوگئی۔مولانا مجددی نے کہا کہ حکومت اور پلاننگ کمیشن(نیتی آیوگ) کے اعداد و شمار کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کے اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ انسانی ترقی کے ہر شعبے میں مسلمان اپنے برادران وطن سے پسماندہ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پلاننگ کمیشن کے مطابق اقلیتوں میں سکھ طبقہ سب سے بہتر صورت حال میں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات میں جس کے پاس پیسہ ہے وہ ترقی کرے گا اور مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہت خراب ہے اس لئے وہ اعلی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لئے سچر کمیٹی نے اس کی تعلیمی اور اقتصادی حالات کو بہتر کرنے کے لئے معتدد سفارش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسی لئے ہمارے اجداد نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا خواب دیکھا تھا اور ہمارے والد محترم شاہ عبدالرحیم مجددی نے جامعہ ہدایت کی بنیاد ڈالی تھی جس میں اس وقت دینی عصری تعلیم کے ساتھ کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اجداد کا خواب تھاکہ دینی تعلیم کا ایسا نظام قائم کیاجائے جس سے روزگار حاصل ہوسکے۔ اس لئے انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا انتطام کیا جس سے مدارس کے طلبہ کو استفادہ کرنے کاموقع ملا۔ انہوں نے کہاکہ1996 میں امام ربانی اگلش میڈیم اسکول کی بنیاد رکھی گئی جو آج ملی نوجوانوں کو رفتار زمانہ سے علمی سطح پر ہم آہنگ کرنے کا ایک موثر ذریعہ بن گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ سالانہ پروگرام کامقصد نہ صرف بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے بلکہ بچوں کی یاد داشت کو بھی تیز کرنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ امام ربانی بپلک اسکول کے علاوہ چاراسکول ہیں۔کیوں کہ چاروں اسکولوں کا ایک ساتھ سالانہ پروگرام منعقد کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے ان اسکولوں کے کچھ عرصے کے  بعد سالانہ پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔۔

مولانا مجددی نے کہا کہ اسی کے ساتھ ایک یہ سوچ بھی شامل حال رہی کہ مسلمانوں کو اس وقت تک ہمہ جہت قومی ترقی کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا جب تک سرکاری دفاتر اور سیول سروسیز میں ان کی مناسب نمائندگی نہیں ملتی۔ اس سوچ کے تحت کریسینٹ اکیڈمی قائم کی گئی جہاں سے اب تک175بچے کامیاب ہو کر ملک کے مختلف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔

عبدالرحیم ایجوکیشنل ٹرسٹ کی وائس چیرمین ڈاکٹر ثمرہ سلطانہ نے کہا کہ اگر خواتین میں حوصلہ اور عزم ہے تووہ دنیا کے ہر شعبے میں اپنی چھاپ چھوڑ سکتی ہیں۔انہوں نے سچر کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں میں تعلیم کی بہت کمی ہے اور اس کا ڈراپ آؤٹ بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ اس قوم کا حا ل جس کی مذہبی کتاب آغاز ہی اقرا سے ہوئی ہے۔اس پروگرام کے اہم شرکاء میں چیف سکریٹری حکومت راجستھان، راجستھان اقلیتی کمیشن کے چیرمین، سابق وزیر صحت نواب صاحب درو میاں، ڈاکٹر بشری آئی پی ایس، اسکولوں کے پرنسپلزاور عمائدین شہر موجود تھے۔