محبوب الحق:جنہوں نے آسام میں دیا کمپیوٹر کی تعلیم کو عروج

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 09-12-2021
محبوب الحق:جنہوں نے آسام میں دیا کمپیوٹر کی تعلیم کو عروج
محبوب الحق:جنہوں نے آسام میں دیا کمپیوٹر کی تعلیم کو عروج

 



 

امتیاز احمد/ گوہاٹی

سنہ2000 کےدہائی کی بات ہے جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک تعلیم یافتہ شخص محبوب الحق اپنے آبائی علاقے ضلع کریم گنج سےریاست آسام کے دارالحکومت گوہائی آئے۔چوں کہ انہوں نے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کیا تھا۔ شمال مشرقی علاقے گوہاٹی میں بھی انھوں نے کمپیوٹر سائنس کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا۔ جب انہوں نے گوہاٹی میں کام شروع کیا تو انہیں ابتداً مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، تاہم وہ حالات سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ مسقتل مزاجی کے ساتھ اپنے میدان میں کام کرتے رہے۔

محبوب الحق بتاتے ہیں کہ مجھے یہاں رہائش اختیار کرنے اور 'انفارمیشن ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ' قائم کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ کوئی مجھے یہاں رہنے کے لیے کرائے پر مکان تک دینے کو   تیار نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک سال کی جدوجہد کے بعد ڈس پور کے علاقے میں ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر رہنے کے لیے مل گیا۔ جہاں میں نے سکم منی پال یونیورسٹی سے منسلک ایک آئی ٹی کالج قائم کیا جس کے کچھ دنوں کے میں آئی آر ڈی (ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) فاؤنڈیشن قائم کرنےمیں کامیاب ہوگیا۔

محبوب الحق نے کہا کہ ادارے کو چلانا آسان نہیں تھا کیونکہ آسام حکومت انہیں ضروری اجازت دینے سے گریزاں تھی۔ وہ اپنے ابتدائی دنوں کی مشکلات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں میں نے گوہاٹی میں خریدی گئی زمین کے ایک پلاٹ پر'آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ' قائم کرنے کی اجازت کے لیے ریاستی حکومت سے اجازت طلب کی، مگر حکومت کی جانب سے اس کی اجازت نہ مل سکی۔

awaz

اس کے بعد وہ وہاں سے پڑوسی ریاست میگھالیہ چلے گئے، میگھالیہ کے ری بھوئی ضلع میں ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (RIST) قائم کیا۔ یہ ادارہ ایسٹرن ہل یونیورسٹی(North-Eastern Hill University) سے منسلک ہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی، جو محبوب الحق کو اپنے ابتدائی دنوں میں ملی۔

ریاست میگھالیہ میں بھی انہوں نےآرآئی ایس ٹی (RIST) کے لیے مستقل کیمپس بنانے کے لیے اراضی خریدنی چاہی، حسن اتفاق سے میگھالیہ کے گورنرآرایس موشاہری (RS Mooshahary)کی جانب سے انہیں یونیورسٹی قائم کرنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ ری بھوئی ضلع میں کِلنگ روڈ پر 10 ایکڑ زمین بھی یونیورسٹی کے نام پر الاٹ کردی۔ محبوب الحق نے بتایا کہ انہوں نے میگھالیہ حکومت سے 38 لاکھ روپے میں 10 ایکڑ زمین یونیورسٹی بنانے کے لیے خرید لی۔

اگرچہ میگھالیہ حکومت نے 2008 میں یونیورسٹی کے لیے اجازت دے دی تھی، لیکن فنڈ کی کمی کی وجہ سے تین برسوں کے بعد2011 میں یونورسٹی میں پوری طرح سے کام شروع ہوپایا۔

محبوب الحق اس وقت یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی میگھالیہ (یو ایس ٹی ایم) کے چانسلر ہیں جسے انہوں نے گورنرموشاہری اور اس وقت کے میگھالیہ کے وزیر تعلیم مانس چودھری(Manas Chaudhuri) کے تعاون سے قائم کیا تھا۔

گوہاٹی کے قریب پہاڑی کی چوٹی پر واقع ایک وسیع و عریض کیمپس میں پھیلی ہوئی یونیورسٹی (University of Science and Technology, Meghalaya-USTM)آج شمال مشرقی ریاست کی معروف نجی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جو انجینئرنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی، آرٹس، فارماکولوجی (pharmacology) کے شعبوں میں تعلیم فراہم کرتی ہے۔اس کے ساتھ یہ میگھالیہ کی پہلی یونیورسٹی بننے جا رہی ہے جہاں میڈیکل کالج بھی قائم ہونے جا رہا ہے۔

اس یونیورسٹی نے حال ہی میں اپنے انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم اور تحقیقی کاموں کے لیے نیشنل اسسمنٹ اینڈ ایکریڈیٹیشن کونسل (NAAC) گریڈ اے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ محبوب الحق کہتے ہیں کہ دوسرے تعلیمی اداروں کےمقابلے میں یہ ایک جدید ادارہ ہے۔ این اے اے سی (NAAC)گریڈ اے(A) کا سرٹیفیکیشن ملنا یقینی طور پر یونیورسٹی کواگلے درجے تک لے جانے میں مزید تحریک ثابت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ وہ گذشتہ سال سے ہی اس کی توقع کر رہے تھے۔ تاہم وبائی صورتحال نے ہر چیز میں تاخیر کردی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب یونیورسٹی کے 900 ملازمین اور ہزاروں طلباء کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے یونیورسٹی اس مقام تک پہنچی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ادارہ اگرچہ جدید ہے تاہم اب وہ اس ادارے کو ملک میں ایک مثالی ادارہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ بیرون ممالک کے طلباء اورمحققین کو اس کی جانب راغب کیا جا سکے۔ یہ کافی مایوس کن ہے کہ پڑوسی ممالک کے طلباء غیر معروف اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دہلی یا بنگلورو وغیرہ جاتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں مگروہ یہاں بہت کم خرچ کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔

awathevoice

انہوں نے ریاستی حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ جزوی طور پر ہماری حکومتوں کی جانب سے اقدامات کی کمی ہے، جو صرف روایتی کاروباری شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں اور تعلیم اور اس طرح کے دیگر ممکنہ غیر ملکی آمدنی کمانے والے شعبوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔

انہوں نے شمال مشرق میں شورش کے عنصر کو غیر ملکی طلباء کو راغب کرنے میں ناکامی کے لیے رکاوٹ بھی مسترد نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ برسراقتدار جماعت کا فرض ہےکہ وہ دنیا کے سامنے خطے کی صحیح تصویر پیش کریں۔ یہ اب شورش کا شکار خطہ نہیں ہے اور ملک کے کچھ دوسرے حصوں کے مقابلے میں یہ ایک محفوظ مقام ہے۔

یونیورسٹی کے نصاب میں کھیلوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، مثلاً گھوڑسواری وغیرہ۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باوجود فی الحال بیرون ملک کے طلباء کی رہائش کے لیے ایک بین الاقوامی ہاسٹل کی تعمیر کی جا رہی ہے۔  کیمپس کو خود کفیل بنانے کے منصوبے پر کام کرتے ہوئے محبوب الحق نے کہا کہ یونیورسٹی کیمپس میں  شمسی توانائی(solar power) سے الکٹرک حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آرگینک فارمنگ (organic farming) بھی شروع کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں لاک ڈاون کے دنوں میں سبزیوں اور مویشیوں کے تعلق سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے انہوں نے کیمپس کو خود مختار بنانے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ آئندہ سال تک ہم اپنے ڈیری فارم (dairy farm) سے ہر طالب علم کو کم از کم 250 ملی لیٹر دودھ فراہم کر سکیں گے۔ کیمپس میں اگائی جانے والی سبزیاں ہاسٹلز کے ساتھ ساتھ   کینٹین میں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

یونیورسٹی کے اخراجات طلبا کی فیس سے پورے کئے جاتے ہیں،اس کے علاوہ یونیورسٹی فلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کمیونٹی سروس میں بھی فعال ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے ملازمین کو تنخواہ کے طور پرسالانہ 1.35 کروڑ روپے سے زیادہ دیے جاتے ہیں۔

محبوب الحق اپنے سینئر اساتذہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو تنخواہوں کے تعلق سے بحث و مباحثہ نہیں۔ اس کے علاوہ دوسری یونیورسٹیوں سے ریٹائرڈ کچھ سینئر فیکلٹیز بغیر تنخواہ کے بھی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ وہ ہماری یونیورسٹی کے ساتھ کام کرنے اس لیے بھی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہاں کا انفراسٹکچرتحقیقی سرگرمیوں وغیرہ کے لیے بھی کافی سازگار ہے۔

محدود وسائل کے باوجود یونیورسٹی معاشی طور پر پسماندہ طلباء کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ یونیورسٹی نے اس تعلیمی سال میں تقریباً 300 طلباء کو مفت داخلہ دیا ہے۔ ان طالبات سے صرف ہاسٹل کے اخراجات وصول کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غریب طلباء کے لیے یونیورسٹی کی جانب سے وظائف مقرر ہیں، بیرون ملک میں رہائش پذیر ان کے کچھ دوست ان کا تعاون کرتے ہیں۔

مجوزہ میڈیکل کالج کے قیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے محبوب الحق نے کہا کہ ہم کیمپس کے اندر زمین کا ایک پلاٹ مختص کر دیا گیا ہے تاہم وبائی صورتحال ایک رکاوٹ بن رہی ہے کیونکہ اسی وجہ سے یونیورسٹی کے وسائل بھی محدود ہوگئے۔ اس تعلق سے انہیں مزید کہا کہ میڈیکل کالج کے قیام میں دلچسپی لینے والے سرمایہ کاروں، خاص طور پر ڈاکٹروں کی انہیں تلاش ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں آسام کی سرزمین میں یونیورسٹی قائم کرنے کا موقع نہ ملنے پر افسوس ہے۔

awaz

اس پر محبوب الحق نے کہا کہ میں منفی باتوں کو بھول جانا ہی بہترسمجھتا ہوں۔ آسام ہویا میگھالیہ میں کام کر رہا ہوں۔ میں جس پروجیکٹ کے ساتھ آسام کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا تھا اوراب میں یہاں سے وہی خدمت کر رہا ہوں۔ زیادہ تر ملازمین (90 فیصد) کے ساتھ ساتھ طلباء (65 فیصد) آسام سے ہی ہیں۔اس کے بعد میگھالیہ، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، منی پور اور دیگر ریاستوں سے طلبا یہاں آتے ہیں۔ میں میگھالیہ حکومت کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مسلسل حمایت کی۔

محبوب الحق نےآخر میں کہا کہ ہم ریاستی حکومت اوروزیر اعلیٰ کونراڈ سنگما (Conrad Sangma) کے شکر گزار ہیں کہ انہوں این اے اے سی میں گریڈ اے ملنے پر یونیورسٹی کا دورہ کیا ہے۔