مولانا عثمان منصورپوری کا سانحہ ارتحال: مخلص مربی سے محروم ہوگیا۔ محمود مدنی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-05-2021
مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری
مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری

 

 

جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم حضرت امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نوراللہ مرقدہ نے آج دوپہر گروگرام کے میدانتا ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت مولانا مرحوم کرونا وائرس کے مابعد ہونے والی پیچیدگیوں کے شکار تھے، 19/مئی کو ان کو میدانتا ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا،جہاں علاج کے دور ان حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وصال فرماگئے۔

 آپ بیک وقت ایشیا کے دوبڑے ادارے دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے رہ نما تھے، مارچ 2008ء سے تادم واپسیں جمعیۃ علماء ہند کے صدر تھے۔2010ء میں حضرت مولانا مرغوب الرحمن ؒ کے وصال کے بعد آپ کو امارت شرعیہ ہند کے تحت امیر الہند رابع منتخب کیا گیا تھا۔1995 سے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے مدعو خصوصی و رکن رہے، 1979ء میں حضرت فدائے ملت ؒ مولانا سید اسعد مدنی ؒ کی قیادت میں ہونے والی’ملک و ملت بچاؤ تحریک‘میں آپ جیل بھی گئے۔فدائے ملت ؒکے وصال کے بعد تنظیم کی اصل پالیسی اور روایات کے مطابق انھوں نے مشن اور کاموں کو آگے بڑھایا۔ ان کے دور صدارت میں جمعیۃ علماء ہند نے دہشت گردی کے خلاف ملک گیر سطح پر تحریکیں چلائیں اور اور اسلام کے پیغام امن کی اشاعت کے لیے دہلی اور دیوبند میں عالمی سطح کی’امن عالم کانفرنس‘ منعقد کی۔

حضرت مولانا مرحوم ملک میں سبھی طبقوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی کوشاں رہے، چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اجلاس منتظمہ 2019ء میں ہندو مسلم کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے سدبھاؤنا منچ قائم کیا، اسی طرح 2017ء میں ایک ہزار شہروں میں ایک ساتھ امن مارچ نکالا گیا،نیز دلت مسلم اتحاد کے لیے تحریکیں چلائی گئیں۔2011ء میں انسداد فرقہ وارانہ فساد بل اور مسلم اقلیت کو ریزرویشن کے لیے’ملک وملت بچاؤ تحریک‘ چلائی گئی، جس کی قیادت آپ نے خود لکھنو میں فرمائی۔ اس کے علاوہ سال 2016ء میں اجمیر شریف میں جمعیۃ علماء ہند کا 33/واں اجلاس عام منعقد ہوا، جس میں مسلمانوں کے دو طبقے آپس میں ایک سا تھ سر جوڑ کر بیٹھے اور اتحاد کا پیغام دیا۔ آپ کی قیاد ت میں جمعیۃ علماء ہند نے دہلی فساد متاثرین اور اس سے قبل بہار، کشمیر سیلاب زدگان اور مظفرنگر و آسام فساد زدگان کی بازآبادکاری کا بڑا کارنامہ انجام دیا۔

 آپ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کے مربی اور استاذ تھے، صدر جمعیۃ علماء ہند منتخب ہونے کے بعد آپ نے اپنی فراست اور دانش مندی سے ہمیشہ ان کی رہ نمائی فرمائی۔مولانا مدنی نے ان کی وفات کو خاص طور سے ذاتی نقصان بتایا اور کہا کہ وہ آج اپنے ایک مربی، استاذ اور سرپرست سے محروم ہو گئے۔ آپ کوفضل و کمال، شرافت و نجابت اور تقویٰ و طہارت کے ساتھ قدرتِ فیاض سے حسنِ تربیت اور نظم و نسق کی اعلیٰ صلاحیت عطا ہوئی۔ طالبانِ علوم کے ساتھ ہمدردی، غمگساری اور فریاد رسی آپ کا خصوصی امتیاز رہا، جبکہ اصول پسندی طبعی وصف تھی

 اس کے علاوہ آپ دارالعلوم دیوبند کے انتہائی موقر استاذحدیث تھے،۱۹۸۲ء سے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تدریسی فرائض کے ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ آپ کا درس حشو و زوائد سے پاک انتہائی متین، سنجیدہ اور عالمانہ ہوتا۔ زبان صاف ستھری اور ترجمہ انتہائی سلیس اور شستہ ہوتا تھا۔آپ ۱۹۹۹ء سے ۲۰۱۰ء تک دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم رہے، حال میں رکن شوری دارالعلوم دیوبند نے آپ کو معاون مہتمم منتخب کیا، آپ فی الوقت دارالعلوم دیوبند کے قائم مقام مہتمم بھی تھے۔آپ تحفظ ختم نبوت تحریک کے لیے عالمی سطح پر معروف تھے اور یہ آپ کی ممتاز خدمات میں سے ایک تھی۔اکتوبر ۱۹۸۶ء میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کا انعقاد ہوا، جس کے آپ کنوینر تھے۔ اس موقع پر ’کل ہند مجلس تحفظ نبوت‘ کا قیام عمل میں آیا، آپ ناظم منتخب ہوئے، جس پر تادم واپسیں فائزر ہے۔ اس ادارہ نے ملک کے طول و عرض میں فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے عظیم تر خدمات انجام دیں، جو دارالعلوم کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ یہ تمام خدمات آپ کی ایمانی حس و حمیت، انتھک جدوجہد اور بے پناہ جذبہ کا ثمرہ ہے۔

 آپ کی وفات سے ایشیاء کے دو بڑے ادارے دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کو اور بالعموم ملت اسلامیہ ہند کو نقصان عظیم لاحق ہو ا ہے، جس کو پر کرنا مشکل ہو گا۔آج پورا ملک ایسے عظیم اور مخلص رہ نما کی وفات پر غم میں ڈوبا ہوا ہے۔(انا اللہ و انا الیہ رجعون) حضرت مولانا مرحوم کا مختصر تعارف آپ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ‘ کے داماد، دارالعلوم دیوبند کے سابق نائب مہتمم، استاذِ حدیث اور کل ہند مجلسِ تحفظ ختم نبوت کے ناظم بھی تھے۔ حسن و جمال، فضل و کمال، شرافت و نجابت اور تقویٰ و طہارت کے ساتھ قدرتِ فیاض سے حسنِ تربیت اور نظم و نسق کی اعلیٰ صلاحیت عطا ہوئی۔ طالبانِ علوم کے ساتھ ہمدردی، غمگساری اور فریاد رسی آپ کا خصوصی امتیاز رہا، جبکہ اصول پسندی طبعی وصف تھی۔

 آپ کا وطن منصور پور ضلع مظفر نگر ہے، جہاں ۲۱/اگست ۱۹۴۴ء کو سادات کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والدِ گرامی نواب سیّد محمد عیسیٰ مرحوم انتہائی متمول رئیس اور زمیندار تھے۔ اسی کے ساتھ نہایت صالح، متقی اور حد درجہ پابندِ شریعت۔خلافِ شرع امور کے لیے ان کی طبیعت میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ اولاد کو علم وعمل سے آراستہ کرنے کا بے پناہ جذبہ اور انتہائی لگن تھی، اس کی خاطر گھر چھوڑ کر دیوبند میں اقامت اختیار کرلی تھی۔ ۱۹۶۳ء میں دیوبند ہی میں انتقال ہوا۔ مزارِ قاسمی میں مدفون ہیں۔

 آپ نے ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی اور حفظِ کلام اللہ والد مرحوم کے پاس کیا۔ پھر فارسی درجات سے دورہئ حدیث تک مکمل تعلیم مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی۔ ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے۔ ۱۹۶۵ء-۱۳۸۵ھ میں دورہئ حدیث کے امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ ۱۹۶۶ء میں شیخ القراء حضرت قاری حفظ الرحمن صاحبؒ اور قاری عتیق صاحبؒ سے تجوید و قرأت کا فن حاصل کیا۔ ادیبِ اریب مولانا وحید الزماں کیرانویؒ سے عربی زبان و ادب میں کمال حاصل کیا اور امیر الہند حضرت مولانا سیّد اسعد مدنیؒ سے سلوک و معرفت کی تکمیل کی اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔

تعلیم سے فراغت کے بعد پانچ سال جامعہ قاسمیہ گیا بہار میں اور گیارہ سال جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ مختلف علوم و فنون کی کتابیں زیرِ درس رہیں۔ ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ملّی خدمات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ۱۹۷۹ء میں ملک و ملت بچاؤ تحریک کے پہلے دور میں ایک جتھہ کی قیادت کرتے ہوئے گرفتاری دی اور دس دن تہاڑ جیل میں رہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلسِ عاملہ میں بحیثیت رکن، مدعو خصوصی شریک ہوکر اپنی قیمتی آرا و مشوروں سے مستفید کرتے رہے۔ 6/مارچ 2008ء کو مجلسِ عاملہ نے عارضی طور پر صدر منتخب کیا اور 5/اپریل 2008ء کو مجلسِ منتظمہ نے مستقل طور پر صدر منتخب کرلیا۔ تادم واپسیں اس عظیم منصب پر فائز ہوکر خدمات انجام دیتے رہے۔

 ۱۹۸۲ء سے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تدریسی فرائض کے ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ آپ کا درس حشو و زوائد سے پاک انتہائی متین، سنجیدہ اور عالمانہ ہوتا۔ زبان صاف ستھری اور ترجمہ انتہائی سلیس اور شستہ ہوتا تھا۔۔ اکتوبر۱۹۸۶ء میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کا انعقاد ہوا، جس کے آپ کنوینر تھے۔ اس موقع پر ’کل ہند مجلس تحفظ نبوت‘ کا قیام عمل میں آیا، آپ ناظم منتخب ہوئے، جس پر تادم واپسیں فائزر ہے۔ اس ادارہ نے ملک کے طول و عرض میں فتنہئ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے عظیم تر خدمات انجام دیں، جو دارالعلوم کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ یہ تمام خدمات آپ کی ایمانی حس و حمیت، انتھک جدوجہد اور بے پناہ جذبہ کا ثمرہ ہے۔ یقینا آپ ’یقاتلون اہل الفتن‘ کے وصف سے ممتاز ’الآخرون السّابقون‘ کی اس جماعت میں شامل تھے، جنھیں ارشادِ نبوی ’لہم مثل اجرأ ولہم‘ کا شرف و افتخار حاصل ہوتا ہے۔

۔سال ۱۹۹۹ء سے ۲۰۱۰ء تک ان فرائض و ذمہ داریوں کے ساتھ نیابت اہتمام کی ذمہ داری بھی بحسن و خوبی انجام دی،۲۰۲۰ء میں دارالعلوم کی مجلس شوری نے آپ کو دارالعلوم کا معاون مہتمم بھی منتخب کیا، آپ اس رمضان المبارک میں دارالعلوم دیوبند کے قائم مقام مہتمم تھے۔ ہجوم و مشاغل کی بنا پر تصنیف و تالیف کا کوئی معتدبہ ذخیرہ نہیں، تاہم کچھ رسائل ومقالات ہیں، جس سے تحریر و تصنیف کا ستھرا ذوق معلوم ہوتا ہے۔

سال ۱۹۶۶ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ‘ کی صاحبزادی عمرانہ خاتون سے آپ کا عقد مسنون ہوا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے نکاح پڑھایا۔ دو ہونہار سعادت آثار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہیں۔ بڑے صاحبزادے مولانا مفتی سیّدسلمان منصور پوری صاحب مدرسہ شاہی مراد آباد کے مفتی و استاذِ حدیث اور ’ندائے شاہی‘ کے مدیر اور ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنّف ہیں۔ دوسرے حافظ قاری مفتی سیّد محمد عفان صاحب منصورپوری دارالعلوم دیوبند میں افتا و تکمیل ادب اور تخصّص فی الحدیث سے فارغ ہوکر چار سال مدرسہ شاہی مراد آباد میں تدریسی خدمات انجام دے کر شوال ۱۴۳۰ھ سے جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں استاذ حدیث اور صدر المدرسین ہیں۔۔