مولانا محمود حسن: ہندومسلم اتحاد اورقوم پرستانہ تعلیم کے علمبردار

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 29-11-2021
مولانا محمود حسن: ہندومسلم اتحاد اورقومی تعلیم کے سب سے بڑے وکیل
مولانا محمود حسن: ہندومسلم اتحاد اورقومی تعلیم کے سب سے بڑے وکیل

 

 

w

ثاقب سلیم،نئی دہلی

مولانا محمود حسن 19ویں صدی کے اواخر اور 20ویں صدی کے اوائل کے نامور مسلم علماء میں سے ایک تھے۔ عوام و خواص کے درمیان مولانا ایک مستند عالم دین سمجھے جاتے تھے،انہوں نے ریاست اترپردیش کے دیوبند میں دارالعلوم کی سرپرستی کی تھی۔

 آج دارالعلوم دیوبند عالم اسلام میں دینی تعلیم کے اہم اداروں میں سے ایک ہے۔ عام علما کے برعکس مولانا محمود حسن نے اسلامی اسکالرز اور مغربی تعلیم یافتہ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان پیدا شدہ خلیج کو ختم کرنے کی سعی کی۔

قدامت پسند علما نے سرسیداحمد خان کی قیادت والی علی گڑھ تحریک کو بدعتی قرار دیا تھا، حالاں کہ مولانا محمود حسن نے یہ دلیل دی تھی کہ مغربی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے،بلکہ ان کی ذہنیت کا غلام بننا مسئلہ ہے۔

سن 1916 میں برطانونی انٹی لیجنس نے ایک سازش کا پردہ فاش کیا تھا کہ ترکی، جرمنی اورافغانستان کی مدد سے ان کی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی 'سازش' کی جا رہی ہے۔ برطانوی حکومت نے اس سازش کو ریشمی رومال یا سلک لیٹر کنسپیریسی کہا اور مولانامحمود حسن کو اس کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا۔برطانوی حکومت نے مولانا محمود حسن کو مولانا حسین احمد مدنی کے ہمراہ گرفتار کرکے مالٹا کے جزیرے میں قید کر دیا۔  پہلی جنگ عظیم کے بعد انہیں 1920 میں رہا کر دیا گیا۔ مہاتما گاندھی اوراس وقت کے دیگر قوم پرست رہنماؤں نے مولاناکی ہندوستان واپسی پر،ان کا شاندار استقبال کیا۔

یہ اس وقت کی بات ہے، جب کہ مہاتما گاندھی جلیانوالہ باغ کے ہولناک قتل عام کے بعد خلافت اور عدم تعاون تحریک(non-cooperation) کی قیادت کر رہے تھے۔  مولانا محمود حسن نے نے عدم تعاون تحریک کی حمایت کا برسرعام اعلان کیا۔

اس تحریک کے ذیل میں مہاتما گاندھی، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی، ڈاکٹرمختار احمد انصاری اور دیگر رہنماوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء سے کہا کہ وہ یا تو کالج کی تعلیم کو ترک کردیں، یا پھر وہ کالج انتظامیہ کو سرکاری فنڈنگ ​​ترک کرنے کے لیے مجبور کردیں۔مولانا محمود حسن نے اس اپیل کی حمایت کی۔29 اکتوبر 1920 کو علی گڑھ کے قوم پرست طلباء نے ایک نیشنل مسلم یونیورسٹی قائم کی جسے بعد میں 'جامعہ ملیہ اسلامیہ' کہا گیا۔ اس دوران جو پروگرام ہوئے ، اس کی صدارت مولانا محمود حسن کی تھی۔

اس موقع پر مولانامحمود حسن نے ایک صدارتی تقریر تیار کی تھی، مگر اسے خود سے پڑھ نہ سکے، بلکہ ان کے ایک شاگرد نے تقریر پڑھ کر سنائی تھی، کیوں کہ جیل میں مسلسل رہنے کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہوگئی تھی۔انہوں نےاپنےخطاب میں جو باتیں کہی تھیں، وہ دراصل پچھلی صدی کے سماجی، سیاسی اورمذہبی فکر کا خلاصہ ہے۔ اس دن انہوں نے اپنے سامعین کو جو کچھ کہا وہ آج کے ہندوستان سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔مولانامحمودحسن نے کہا کہ انگریزی، مغربی علوم، فلسفہ اوردیگر یورپی علم کا مطالعہ کرنا نقصان دہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ انگریزی تعلیم یورپی سلطنت کا ذہنی غلام پیدا کرنے کا سبب بنی ہے، جیسا کہ لارڈ میکالے نے پیشین گوئی کی تھی۔

مغربی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد مشرق کی ثقافت اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مولانامحمود حسن نے اس تعلیم کو دودھ سے تشبیہ دی ہے، جودودھ کی شکل میں طلبا کو سستا زہر دے رہے ہیں۔ جو قوم اپنی ثقافت وراثت کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے، اسے غیروں کی امداد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں تعلیم کے ذریعے ہی کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے۔

انہوں نے ایک ایسی تعلیم کی وکالت کی جو غیر ملکی مداخلت سے پاک ہو، وہ ایک ایسی تعلیم ہو جو طلبا کے اندر اعلی اقدار، مذہب، ثقافت اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرے۔ اس قسم کی تعلیم ملک کی مجموعی ترقی کا ضامن ہے۔مولانامحمود حسن نے ان لوگوں کی مخالفت کی جو جدوجہد آزادی میں ہندو مسلم اتحاد کے خلاف تھے۔مخالفین کا کہنا تھا کہ مذہبی کتابوں کے مطابق مسلمانوں کو ہندوؤں کی قیادت قبول کرنے اور ان کے ساتھ دوستی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

مولانا محمود حسن نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بتایا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں اور سکھوں کے اتحاد کو اللہ کا فضل سمجھ کر خوش آمدید کہا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ دلیل دی کہ قرآن نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان غیر مسلموں سے نہ لڑیں جنہوں نے انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے نہ روکا ہو۔ بلکہ مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے غیر مسلموں کے ساتھ انصاف اور تہذیب سے پیش آئیں، جو نقصان کا باعث نہ ہوں۔

انہوں نے یہ دلیل دی کہ مذہب نے مسلمانوں کو غیر مسلموں سے دوستی کرنے یا ان کے ساتھ اتحاد کرنے سے نہیں روکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا محمود حسن کا مختصرساخطاب ایک قومی تعلیمی نصاب کی اہمیت پر زور دے رہا ہے، جو طلباء کو اپنی ثقافت اور مذہب پر فخر کرنا سکھاتا ہےاور قوم کی مستقبل کی ترقی کے لیے ہندو مسلم اتحاد کی بھی تعلیم دیتا ہے۔