غوث سیوانی، نئی دہلی
تمدن انسانی کی تاریخ میں شادی بے حد اہم رہی ہے۔ دنیا کی سبھی تہذیبوں میں اسے اہمیت ملی ہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر کی قوموں میں شادی کے رسم و رواج بھی مختلف ہیں۔ ان رواجوں کا تعلق مذہب نہیں سماج سے ہے۔ اسی لئے ہندوستان میں شادی بیاہ کی رسوم مذہب سے بلند ہیں اور یہ ہندووں اور مسلمانوں کو جوڑنے کا کام کرتی ہیں۔ یوں تو شادی کا ذکر قدیم ہندو گرنتھوں رگ وید اور اتھرو وید میں ہے اور شادی کو گرہست آشرم کی بنیاد مانا گیا ہے، وہیں دوسری طرف قرآن اور احادیث نبویہ میں بھی شادی کا حکم ہے۔ ہندو روایات میں کہا گیا ہے کہ شادی کی تقریب کے ذریعے انسان کی کل 21 نسلیں گناہوں سے آزاد ہو جاتی ہیں۔ وہیں اسلام میں بھی نکاح کو گناہوں سے بچائو کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ شادی کا طریقہ ہندووں اور مسلمانوں میں مختلف ہوسکتا ہے مگر رسوم میں ہم آہنگی ہے۔ رواجوں کی یکسانیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں طبقات ایک سماج کا حصہ ہیں اور ایک دوسرے کے زیر اثر ہیں۔ شادیوں کی تقریبات کا آغاز مذہبی مشاغل سے ہوتا ہے۔ جیسے ہندو، پوجا کرتے ہیں اور مسلمان محفل میلاد یا قرآن خوانی کرتے ہیں۔ اس کا مقصد ظاہر ہے کہ وہ خیر و برکت چاہتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے دولہا ہندو ہو یا مسلمان، وہ شیروانی پہنتا ہے اور دلہن سرخ جوڑے پہنتی ہے۔ یہ ہندو اور مسلمان میں یکسانیت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اسی طرح دولہا اور دلہن کو سہرا باندھنے کا رواج بھی پورے ہندوستان میں ہے۔ یہ رواج بھی مذہب سے بالاتر ہے۔
برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ کسی بھی خطے میں یہ رسم نہیں ہے۔ مسلم ملکوں میں سہرا باندھنے کا رواج نہیں ہے مگر ہندوستان میں موجود ہے اور مانا جاتا ہے کہ یہ یہاں کی پرانی روایت ہے۔ اسی طرح شادی کے چند پہلے سے لڑکی کو گھر میں بٹھادیا جاتا ہے اور اس کے بدن پر مسلسل ابٹن لگایا جاتا ہے۔ یہ رواج بھی برصغیر میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہندووں کی شادی ساتھ پھیروں اور سندور لگاکر ہوتی ہے اور مسلمانوں کی شادی کی اصل روح نکاح ہے، مگر ملک کے بعض علاقوں میں مسلم شادیوں میں یہ رواج اب تک چلا آرہا ہے کہ نکاح کے بعد مسلم دولہا ، جب زنانہ خانہ میں جاتا ہے تو خواتین ، اس کے ہاتھ سے دلہن کی مانگ میں سندور لگواتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اسلامی احکام کا حصہ نہیں مگر ہندوستانی سماج کے زیر اثر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں دوسری روایات بھی ہندووں اور مسلمانوں میں مشترک ہیں ۔
منگنی کی رسم
اسلام میں منگنی کی رسم کا کوئی ذکر نہیں ہے مگر ہندوستانی مسلمانوں میں اس کا رواج ہے۔ اس رسم کے تحت دولہا اور دلہن ایک دوسرے کو انگوٹھی پہناتے ہیں۔ یہ رواج ہندووں، سکھوں اور عیسائیوں میں بھی ہے۔ اس رسم کا مطلب ہوتا ہے کہ شادی کا معاملہ طے شدہ ہے۔اس رسم کے بعد شادی کی آگے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ آج کل، دولہا اور دلہن خود انگوٹھی کی تقریب انجام دیتے ہیں، لیکن پہلے خاندان کے افراد انگوٹھیوں کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔
ہلدی کی تقریب
عام ہندوستانی شادیوں میں ہلدی کی رسم بھی ہے۔ شادی سے چند دن قبل، دلہن کے گھر خواتین اسے ابٹن لگاتی ہیں۔ اسی طرح دولہا کے گھرمیں بھی اسے ابٹن لگایا جاتا ہے۔ ابٹن عموماً ہلدی، سرسوں کا مرکب ہوتا ہے۔ آج کل اس میں دوسری جڑی بوٹیاں بھی شامل کرلی جاتی ہیں۔ اس پیسٹ سے جسم کا میل صاف ہوتا ہے اور رنگ نکھر آتا ہے۔ یہ رسم ہندوستان بھر میں دیکھنے کو ملتی ہے اور بلاتفریق مذہب جاری ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ تقریب کا اہتمام ہوتا ہے اورہلدی کی تقریب کے روز خواتین پیلے رنگ کا لباس پہنتی ہیں۔
مہندی
جس طرح شادی کی تقریبات کا حصہ ہے ہلدی کی رسم، اسی طرح مہندی کی رسم بھی تمام ہندوستانی شادیوں میں ہوتی ہے۔ عام طور پر شادی سے ایک دن پہلے مہندی کی تقریب ہوتی ہے۔ دلہن کے گھر میں اسے خواتین مہندی لگاتی ہیں جب کہ دولہا کے گھر کی عورتیں اسے مہندی لگاتی ہیں۔ دونوں ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگائی جاتی ہے۔ مہندی نہ صرف اچھے شگون کی علامت ہے بلکہ یہ ہاتھ اور پائوں کو سرخ رنگ بھی دیتی ہے۔ قدیم زمانے سے چلی آ رہی اس روایت میں خواتین اکٹھی ہو کر شادی کے گیت گا کر مہندی کی رسم پوری کرتی ہیں۔ ناچ گانے کے ساتھ گانے اور موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شادیوں میں مہندی لگانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مہندی جسم کے درجہ حرارت کو متوازن رکھتی ہے۔ اس کی وجہ سے دولہا اور دلہن کا جسم سکون اور تناؤ سے پاک رہتا ہے اور سر میں درد بھی نہیں ہوتا۔ کچھ پرانے محاوروں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہندی کا رنگ جتنا گہرا ہوتا ہے۔ دولہا اور دلہن کے سسرال والے اور ساتھی اس سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں۔
بارات
شادی میں بارات کی روایت پورے برصغیر میں ہے۔ سبھی مذاہب میں اس کا رواج ہے۔ دولہا اپنے رشتہ داروں اور ساتھیوں کے ساتھ دلہن کے گھر پہنچتا ہے۔ وہاں ان کا استقبال کیا جاتا ہے اور انواع و اقسام کے کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔شادی کی رسم انجام پاتی ہے اور پھر دلہن کے ساتھ بارات رخصت ہوتی ہے۔ شادی کی تمام رسومات میں ہر کوئی پرجوش ہوتا ہے۔ شادی کے جلوس یعنی بارات میں، دولہا گھوڑی پر سوار ہوتا ہے۔ حالانکہ بارات دور جاتی ہے تو عموماً گھوڑی کے بجائے موٹر کار کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
جوتا چرائی
شادی کی سب سے دلچسپ رسم جوتا چھپانا ہے، جس میں جب دولہا منڈپ یا شادی کے مقام پر پہنچ کر اپنے جوتے اتارتا ہے تو دلہن کی بہنیں اور سہیلیاں جوتےچھپا لیتی ہیں۔ بدلے میں دولہے سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔ اس شاندار رسم میں بہت مزہ اور مذاق ہوتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس رسم میں ہندواور مسلمان کا فرق نہیں، سبھی شادیوں میں ہوتی ہے۔ اس رسم کو بعض بالی وڈ فلموں نے بے حد خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سلمان خان اور مادھوری دکشت کی اداکاری سے سجی فلم "ہم آپ کے ہیں کون" میں اس رسم کو جس حسین انداز میں پیش کیا گیا ہے، وہ ناظرین آج بھی نہیں بھول پائے ہیں۔
شادی کے گیت
برصغیر میں شادیوں میں گیت اور سنگیت کی روایت قدیم دور سے چلی آتی ہے۔ سبھی مذاہب کی شادیوں میں یہ رواج ہے۔ یہ گیت اور سنگیت ہندوستانی تہذیب کا اظہار بھی ہیں کیوں کہ عام طور پر ایسے موقع پر لوک گیت گائے جاتے ہیں جو دولہا اور دلہن سے متعلق ہوتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں خواتین ایسے گیت بھی گاتی ہیں جن میں گالیاں شامل ہوتی ہیں اور یہ گالیاں بھی روایت کا حصہ ہیں۔ ہر علاقے اور زبان میں گیت الگ ہیں مگر گیتوں کے مضامین یکساں ہیں۔