کرناٹک/ آواز دی وائس
کرناٹک میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر کارروائی کی گئی ہے۔ بنگلورو میں تقریباً 200 گھروں پر بلڈوزر چلایا گیا، جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد بے گھر ہو گئے۔ الزام ہے کہ اس کارروائی میں زیادہ تر مسلم خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر بائیں بازو کی جماعتوں اور اپوزیشن نے کانگریس حکومت کے خلاف حملے تیز کر دیے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، 22 دسمبر کی صبح تقریباً 4 بجے بنگلورو کی فقیر کالونی اور وسیم لے آؤٹ میں قریب 200 مقامات پر بلڈوزر کارروائی کی گئی۔ اس کارروائی کے باعث لگ بھگ 400 خاندان بے گھر ہو گئے۔ یہ آپریشن بنگلورو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ لمیٹڈ کی جانب سے انجام دیا گیا، جس میں چار جے سی بی مشینوں اور تقریباً 150 پولیس اہلکاروں کی مدد لی گئی۔
کرناٹک حکومت کا موقف ہے کہ یہ مکانات سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔ تاہم مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ بلڈوزر کارروائی سے قبل انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس نے زبردستی انہیں گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا۔
رپورٹ کے مطابق، اس بلڈوزر کارروائی کے بعد کئی افراد اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں اور شدید سردی میں شیلٹر ہومز (پناہ گاہوں) میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، متاثرین کا دعویٰ ہے کہ وہ گزشتہ 25 برسوں سے یہاں رہ رہے تھے اور ان کے پاس آدھار کارڈ سمیت دیگر دستاویزات بھی موجود ہیں۔ اگرچہ یہ معاملہ کرناٹک کا ہے، لیکن چونکہ بڑی تعداد میں مسلم خاندان بے گھر ہوئے ہیں، اس لیے کیرالہ کی برسرِ اقتدار بائیں بازو کی جماعت نے بھی کانگریس حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔
سوشل میڈیا پر کیرالہ حکومت سے وابستہ رہنماؤں نے الزام لگایا کہ سنگھ پریوار کی اقلیت مخالف سوچ اب کرناٹک میں کانگریس حکومت کے ذریعے نافذ کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی حکومت خوف اور طاقت کے بل پر کارروائی کرتی ہے تو سب سے پہلے آئینی اقدار قربان ہوتی ہیں۔ اس پورے تنازع پر کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کو نئی جگہ منتقل ہونے کا موقع دیا تھا۔ ہم بلڈوزر سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے بغیر نام لیے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب مکمل معلومات اور زمینی حقیقت معلوم نہ ہو تو ایسے معاملات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔