مجنوں شاہ: برطانوی حکومت کے خلاف ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کرنے والا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-07-2021
علامتی تصویر
علامتی تصویر

 

 

ثاقب سلیم، نئی دہلی

برطانوی حکومت جب سے قائم ہوئی، ہندوستانیوں کی جانب سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔ سنہ 1757 میں پلاسی کے میدان میں شاہی لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہیں سنہ1764 میں بکسر میں نوآبادیاتی طاقت کے خلاف مزاحمت کو ختم نہیں کیا۔

کسان اور عام لوگ برطانوی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔

اکثر یہ خیال کیا جاتا ہےکہ ’نوآبادیاتی دانشوروں‘ نے ہمیں یہ یقین دلانے کے لئے دھوکہ دیا ہے کہ انگریز سیاسی طور پر بکھری ہوئے برصغیر ہند میں اس وقت پہنچے جب ہندوستانی قوم میں کوئی شعور نہیں تھا؛جہاں ہندو اور مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے کے مدد مقابل کھڑے ہوئے تھے۔

'حالاں کہ اس بیان میں مکمل طور پر تضاد پایا جاتا ہے۔

پلاسی اور بکسر کی لڑائیوں کے بعد برطانونی حکومت کا بنگال پر براہِ راست انتظامی کنٹرول ہوگیاتھا۔

اور پھر انگریزوں کے ذریعہ ہندوستانیوں شہریوں پر بے رحمانہ استحصال کا ایک لمبی مدت تک چلنے والا دور شروع ہوا۔

انگریزوں نے ہندوستانیوں سے دولت لوٹنی شروع کی اور یہاں کے شہریوں کو بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

کیوں کہ اسی لوٹی ہوئی دولت سے انہیں اپنی جدید صنعتوں میں ترقی لانی تھی۔ سنہ 1770 تک ان کی اقتصادی پالیسی انسانی تاریخ کے بدترین قحط کا باعث بنیں۔

اسی پالیسی کے سبب بنگال کی کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ بھوک سے دم توڑ گیا۔

وہیں برطانوی حکومت کو وارین ہیسٹنگز نے پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال زیادہ محصول وصول کرنے پر مبارکباد دی تھی۔

یہی وہ حالات تھے، جب کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مذہبی رہنماوں، فقیروں اور صوفیوں نے ظالم حکومت کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے خود کو بھی تیار کیا۔

آج یہ بات کسی کو بھی حیرت میں ڈال سکتی ہے کہ ان دنوں ہندوں اور مسلمانوں کو متحد کرنے والے ایک صوفی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور کے مکنپور سے تھے۔ ان کا نام تھا مجنوں شاہ۔

اب اس بات کو کون تسلیم کرے گا کہ بنگال میں ہزاروں ہندو صوفیوں، راجپوتوں اور مسلم رہنماوں کو انگریز کے خلاف متحد کرنے والا رہنما ایک غیر بنگالی مسلمان تھا

 یہ اس وقت کے ہندوستان کی بات ہے، جب کہ انگریز حکومت کی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی کے پہلے تھی۔ایک ہندی اور اردو بولنے والے خطے کے ایک مسلمان نے انگریزوں کے خلاف بنگال میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایک فوج کی قیادت کی تھی، جس میں ملک کے ہر حصے مجاہد شامل ہوئے تھے۔ انگریزوں کے خلاف اس مسلح جدوجہدکی قیادت بھوانی پاٹھک، دیوی چودھرانی اور موسیٰ شاہ نے کی تھی لیکن سب سے اہم رہنما ، جس کا احترام سب کو کیا کرتے تھے، وہ دراصل مجنوں شاہ تھے۔

مجنوں شاہ مکنپور (یوپی) کے ایک صوفی درگاہ شاہ مدار کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ بکسر کی لڑائی کے بعد وہ اپنے حامیوں کے ساتھ ویربھوم پہنچ گئے۔

نواب اسدوزمان خان کی اہلیہ لال بی بی اور ایک بزرگ حمید الدین نے انگریزوں سے لڑنے کے لئے انھیں معاشی و روحانی مدد کی تھی۔

حمید الدین نے مجنوں سے کہا کہ جاؤ اور صوفیوں کے ساتھ متحد ہوکر۔ ان کے ساتھ ہتھیار اٹھاؤ اور فرنگیوں یعنی انگریزوں سے چاول اور پیسے چھین کر بھوکے لوگوں میں تقسیم کرو۔

اس کے بعد صوفیوں اور سنتوں کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں انگریز کے خزانوں اور زمین داروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔

متعدد لڑائیوں میں انہوں نے انگریزوں کو کافی نقصان پہنچایا۔                                                                                          سن 1766 میں مورنگ کے مقام پر ایک برطانوی افسر میرٹل کو صوفی نے ایک چھاپے کے دوران مارا گیا ۔

لیفٹیننٹ کیتھ 1769 میں ایک لڑائی کے دوران مارا گیا ، کیپٹن ایڈورڈز ، اور سارجنٹ میجر ڈگلس 1773 میں مارے گئے۔ ان کے علاوہ متعدد سپاہی اور انگریز وفادار تھے 1766 سے 1800 تک کی لڑائیوں کے دوران ہلاک ہوئے۔

مجنون شاہ نے سن 1787 میں اپنی موت تک انگریزوں میں دہشت پھیلائی۔

انگریزی فوج نے انھیں مارنے کے لئے اپنے بہترین افسران کو تعینات کیا لیکن ہربار دشمنوں کی افواج کو ہی نقصان پہنچا، کیوں کہ خفیہ طور پر مجنوں شاہ انگریز فوج کو منتشر کرواکر فرار ہو جاتے تھے۔۔۔۔ تقریباً دو دہائیوں تک بنگال، بہار اور اڈیشہ میں انگریزی افسروں نے اپنے اضلاع میں مجنوں کی سرگرمیوں کی اطلاع دی۔ سن 1770 میں وہ مالدہ کے ایک صوفی مزار (درگاہ) پر پہنچے جس میں لگ بھگ 2000 عقیدت مند تھے۔ ان کے آدمی راکٹوں اور بندوقوں سے لیس تھے۔

ان کے جوانوں نے لیفٹینٹ فیلتھم سے لڑائی کی لیکن انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔

اس کے بعد وہ وہاں سے وہ راجشاہی اور پھر دیناج پور چلے گئے۔

مجنوں شاہ اپنے آدمیوں کے ساتھ انگریزی خزانہ پر چھاپے مارتے رہے اور ہندوستانی مجاہدین کی مدد کرتے رہے۔ سنہ 1776 میں مجنوں نے پھر دیناج پور پر حملہ کیا۔ ان کی مدد کے لئے اس کے پاس راجپوت سپاہی تھے۔
لیفٹیننٹ رابرٹسن نے مجنوں شاہ اور ان کے جوانوں کو پیچھے سے حملہ کر انھیں حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔

اس کی وجہ سے صوفیوں اور سنتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔ تاہم رابرٹسن نے نوٹ کیا کہ وہ خود ہندوستانیوں کی بہادری پر حیران ہیں۔

سن 1783 میں انگریز اس وقت مزید خوف زدہ ہوگئے، جب کہ مجنوں نے میمن سنگھ کے ضلعی مرکز پر حملہ کیا۔

اس کے بعد آئندہ تین سالوں تک لیفٹیننٹ کرو، لیفٹیننٹ آئنسلی اور لیفٹیننٹ برینن جیسے متعدد انگریز افسران کو مجنوں کو مارنے یا گرفتاری دینے کے لئے تعینات کیا گیا تھا لیکن سب کے سب ناکام ہوگئے۔

تاہم صوفی و سنتوں کی اآزادی ہند کے تئیں جدوجہد کو کبھی ناکام نہیں کیا جاسکا۔ فقیروں اور سنیاسیوں کے چھاپوں کو روکا نہیں جاسکا۔

دسمبر 1786 میں مجنوں شاہ دیناجپور میں ایک چھاپے کے دوران گھوڑے سے گر گئے۔ زخمی مجنوں کو ان کے آبائی شہر مکنپور لے جایا گیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی  کی آخری سانس لی ۔ جس جگہ اسے دفن کیا گیا تھا وہاں ایک مزار بنایا گیا تھا۔

مجنوں شاہ کی کہانی بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم ، یا ہندی بنگالی تقسیم کتنا جدید ہے۔