فریدہ جلیس: خواتین کے روزگار کے لیے ایک مثالی جدوجہد

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 24-09-2021
مہیلا سیوا ٹرسٹ کی روح رواں فریدہ جلیس
مہیلا سیوا ٹرسٹ کی روح رواں فریدہ جلیس

 

 

نیلم گپتا، نئی دہلی

کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاون کی وجہ سے سماج میں ایک طرح سے افرا تفری پیدا ہوگئی، جہاں لوگ معاشی طور پر غیریقینی کیفیت میں مبتلا ہوگئے، وہیں بے شمار افراد کورونا میں مبتلا ہوگئے۔  

وہیں کورونا وبا کی دوسری لہر کے دوران لوگ سرکاری ہسپتالوں کی طرف بھاگ رہے تھے ، کیوں کہ مہنگے علاج اور اسپتالوں نے ان کی جیبیں خالی کر دی تھیں۔

چنانچہ لکھنؤ مہیلا سیوا ٹرسٹ نےاپنے کچھو خواتین ارکان کو بیکری کی ٹریننگ دلوائی، جس کا واحد مقصد غریب لوگ کو سستے داموں میں بیکری کی چیزیں فراہم کرنا تھا، یہ خواتین بیکری کی ٹریننگ لینے کے بعد وہ ڈبل روٹی یا بن(bun) بناتی ہیں اور انہیں سرکاری ہسپتالوں میں انتہائی سستے داموں میں غریب لوگوں کو فروخت کرتی ہیں۔

جہاں اس سے غریب مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو بہت کم قیمت پر کھانا مل جاتا ہے، وہیں سیوا کارکنان کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے گھر میں بچوں کے لیے کھانے کی اشیا لاتی ہیں۔

ٹرسٹ کی صدر فریدہ جلیس کہتی ہیں کہ 'اب ہم نے بہت سی اور خواتین کو بیکری کی ٹریننگ دلوائی ہے۔ اب یہ گویا ان کا اپنا اسٹارٹ اپ بن گیا ہے جس کا نام انھوں 'جیویکا بیکرز' رکھا ہے۔ اس میں وہ  مختلف قسم کی بیکری اشیاء بنا رہی ہیں اور فروخت کر رہی ہیں۔

ان میں سے بیشتر وہ خواتین ہیں جو کورونا کی دوسری لہرکے دوران بے روزگار ہو گئیں یا ان کے خاندان میں کوئی کمانے والا نہیں بچا۔

مہیلاسیوا ٹرسٹ

مہیلا سیوا ٹرسٹ کا قیام ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنومیں 1988 میں فریدہ جالیس کی کوششوں سے عمل میں آیا۔ مہیلا سیوا ٹرسٹ اس وقت اتر پردیش کے 14 اضلاع میں غریب اور مزدور خواتین کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اس وقت ریاست بھر میں اس کے 1.5 لاکھ سے زائد ارکان ہیں۔

لکھنو کا مہیلا سیوا ٹرسٹ اگرچہ 'سیوااحمد آباد' سے منسلک ہے، تاہم یہ اپنے آپ میں ایک خود مختار ادارہ ہے۔

فریدہ جلیس اور کینسر

فریدہ جلیس کینسر میں مبتلا تھیں،انھوں نے کینسر جیسی مہلک بیماری کو شکست دی۔ اس کے بعد رواں برس وہ کورونا وائرس سے بھی متاثر ہوگئیں، اس کا بھی مقابلہ انھوں نے زندہ دلی کے ساتھ کیا۔

بیماری کے دوران بھی وہ اپنے ٹرسٹ کے ارکان سے جڑی رہیں اور انہیں ہر ممکن طریقے سے خود انحصار بنانے پر توجہ دیتی رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے کورونا کی آفت کو موقع میں تبدیل کردیا۔

ان کی کوششوں کے نتیجے میں ایک دو نہیں بلکہ پانچ نئے اسٹارٹ اپ کورونا کی دوسری لہر کے دوران خواتین کی طاقت بن کر ابھرے ہیں۔ 

فریدہ جلیس لکھنو جیسے بڑے شہر میں رہتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ جب مارچ 2021 میں کورونا کی دوسری لہر شروع ہوئی تو ابتداً کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا۔ تاہم کچھ دنوں کے بعد ریاست کے مختلف دورافتادہ علاقوں سے رابطے شروع ہوئے۔

وہ حیرت انگیز طور پر انکشاف کرتی ہیں، دیہی علاقوں میں کورونا جیسی مہلک بیماری اور علاج کے بارے میں لوگوں کو کچھ پتہ نہیں تھا ۔

میں نے محسوس کیا کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ انہیں ادویات کی مدد کی بھی ضرورت ہے۔

فریدہ جلیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ محسوس کر لیا کہ  کورونا کی وبا کا اثر طویل عرصے تک قائم رہے گا۔ ایسی صورتحال میں یہ ضروری ہوگیا کہ ہماری اپنی بھی ایک ہیلتھ ٹیم(Health Team) ہو۔

اس کے بعد انھوں نے سیوا ، احمد آباد سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی ضرورت بتائی۔

سیوا احمدآباد کی جانب سے انہیں صحت سے متعلقہ مواد اور کچھ ادویات کی کٹس بھیجی گئیں،اس کے بعد انہوں نے  کچھ خواتین کو مقامی ڈاکٹرز سے تربیت دلوائی۔

اس میں بنیادی طور پر بیماری سے متعلق کچھ باتیں بتائی گئیں، مثال کے طور پر کورونا کیا ہے؟ ڈینگی اور چکن گونیا کیا ہے؟ اگر وہ ہوتے ہیں تو گھریلو علاج کیسے کریں؟ اگر یہ نہیں ہے تو اس کے لیے احتیاطی تدابیر اور اگر ایسا ہوتا ہے تو فوری طور پر کیا کرنا چاہیے۔ آکسی میٹر ، گلوکومیٹر ، بی پی اور شوگر ٹیسٹ مشین کے ذریعے ، کنسٹرکٹر وغیرہ کے انہیں معلومات فراہم کی گئیں۔

اس کے بعد دیہی علاقے کے خواتین کو فون پر اس بیماری سے بچنے کے طریقے بتائے گئے اوراس کے علاوہ جہاں ضرورت تھی وہاں کچھ ضروری ادویات بھی انہیں بھیجوائی گئی۔

فریدہ جلیس بتاتی ہیں کہ  آکسیجن کی مانگ ہر جگہ سے ہمارے پاس آ رہی تھی۔ لوگ دیہات میں بغیر علاج اور آکسیجن کے مر رہے تھے۔ پھر ہم نے بہت سے لوگوں سے رابطہ کیا۔ اسے ہمارے کام کا اثر سمجھیں کہ پہلے ہی دن ہمیں 50 کنسٹرکٹر ملے۔

آج ہمارے پاس 53 کنسٹرکٹر ہیں۔ جو ہمارے نئے قائم کردہ مختلف صحت کی دیکھ بھال کے مراکز میں رکھے گئے ہیں۔

جیویکا بیکرز اور ہیلتھ سینٹرز کے بعد کچن گارڈن کا ایک اور آغاز ہوا۔ فریدہ کے مطابق دوسری لہر میں بے روزگاری بہت بڑھ گئی تھی۔ بہت سی خواتین کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ، یہاں تک کہ پیسے بھی ہاتھ میں نہیں تھے۔ انہیں راشن کٹ میں صرف گندم یا چاول مل رہے تھے۔ سب کی حالت اتنی خراب تھی کہ کسی سے کچھ نہیں پوچھا جا سکتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کافی سوچا۔ پھران خواتین سے کہا کہ وہ اپنے گھروں میں رکھے خالی ڈبوں، بالٹیوں وغیرہ میں دھنیا اگائیں۔ اگر اور کچھ نہیں تو آپ بچوں کو اس کی چٹنی کے ساتھ روٹی بھی کھلا سکتے ہیں۔

یہاں تک کہ دیہاتوں میں خواتین نے جن کے گھر کے باہر خالی زمین تھی دھنیا کے علاوہ کچھ سبزیاں لگائیں۔ آج بہت سی خواتین لوکی ، لوفہ ، بھنگوڑا ، دھنیا ، پودینہ وغیرہ کی کاشت کرکے اپنے گھریلو اخراجات پورا بھی کررہی ہیں۔  اس کے علاوہ  وہ اپنا کچن گارڈن تیار کرنے کی تربیت بھی لے رہی ہے۔

فریدہ کہتی ہیں کہ کورونا کی پہلی لہر میں بھی ہمارے دو اسٹارٹ اپ تھے۔ ایک  ڈیجیٹل لٹریسی اور دوسرا مارکیٹنگ منیجر۔

پہلا لاک ڈاون اور واٹس اپ گروپ

وہ کہتی ہیں کہ ہماری خواتین ارکان غریب ، ناخواندہ اور ایسے علاقوں میں رہتی ہیں جہاں نیٹ ورک نہیں ہے۔ مارچ 2020 میں لاک ڈاؤن کے بعد  چاروں طرف کی صورتحال بہت خراب ہو گئی تھی۔ ہر طرف سے رابطہ ٹوٹ گیا۔

پہلے چند دنوں تک میں نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں۔ اس لیے تشویش زیادہ ہو رہی تھی۔ کیونکہ ہمارے ٹرسٹ سے وابستہ بیشتر خواتین روزانہ کمانے اور روزانہ کھانےپر یقین رکھتی ہیں۔

جب ان سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ کسی کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے دیا جانے والا راشن ہر کسی تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر ایک سے رابطہ کرنا اور ان کی حالت اور ضرورت جاننا ضروری ہے۔

اس کے لیے  چھوٹے چھوٹے واٹس ایپ گروپس بنائے گئے ور ایک بڑا گروپ بنایا۔ ہر ایک سے کہا گیا کہ وہ اس گروپ میں اپنی بات جاری رکھیں۔ پھر اس کے ایک گروپ بنائے گئے جہاں ہدایت دی جاتی تھی سبھی گروپ میں اہم باتیں شیر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

اس سے حالات جاننا آسان ہوگیا  تاہم  دیہات میں خواتین  کے ساتھ اب بھی رابطہ ٹھیک سے نہیں ہو رہا تھا۔ پھر یوٹیوب بنا کرانھوں نے انہیں گروپس میں لکھنا ، چیٹ کرنا ، پیغامات پڑھنا ، فارورڈ ، ای میل ، سی سی ، بی سی سی وغیرہ سکھائے۔ پھرایسا ہوا کہ دیہات کی خواتین نے خود بھی یوٹیوب پر اپنی بات رکھنی شروع کردی۔

رمضان میں زکوٰۃ کی رقم سے مدد

فریدہ جلیس کہتی ہیں کہ میری پریشانی یہ تھی کہ اس لاک ڈاؤن میں خواتین کے لیے کیا کیا جائے کہ ان کے ہاتھوں میں اتنی رقم ہو کہ وہ قریبی دکان سے سامان خرید کر اپنے بچوں کو کھلا سکیں۔ حکومت کی راشن کٹ میں صرف چاول اور گندم دستیاب تھی۔ بچوں کو دودھ چاہیے اور بڑوں کو چائے چاہیے۔ رمضان شروع ہو چکا تھا۔ میں نے لوگوں سے اپیل کی کہ بہت سے لوگ بھوک میں مبتلا ہیں ، اس لیے وہ اپنی زکوٰ  کی رقم ان کے لیے عطیہ کریں۔ تقریبا 40 ہزار روپے جمع ہوئے۔

چھوٹی چھوٹی اشیا فروخت کرنا

میں نے رائے بریلی ، بارابنکی ، فیروز آباد اور لکھنؤ میں اپنی بہت غریب خواتین ارکارن کو دو۔ دو ہزار روپے دیے اور ان سے کہا کہ وہ کچن کی اشیاء جیسے چائے، دال اور نمک کی چھوٹی چھوٹی پوریا بنائیں اور انہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو فروخت کریں۔ ان کی قیمت 10-15 روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت کسی کے پاس کام نہیں تھا اور پیسے نہیں تھے کہ زیادہ سامان خرید سکیں۔

فریدہ کی ہدایت پر خواتین نے ایسا ہی کیا۔ کرفیو کی وجہ سے لوگ بازار بھی نہیں جا سکتے تھے۔ ان خواتین نے اپنے بچوں کی کاپیاں اور بیکار کتابیں پھاڑ کر پوریا بنائی اور انہیں گھر گھر فروخت کرنا شروع کیا۔

خواتین کی بنائی چیزیں خریدی جانے لگی، جس سے ان کو منافع بھی ملنے لگا اور لوگوں کی چھوٹی موٹی ضرورتیں بھی پوری ہونے لگیں۔

 حتیٰ کہ لوگ خود گھر پر سامان لینے کے لیے آنے لگے۔

ماسک بنانے کا کام

فریدہ کہتی ہیں کہ تیسرا کام ماسک بنانے کا تھا۔ ہماری بہت سی خواتین چکن اور زردوزی کے علاوہ کھادی کا کام کر رہی تھیں۔ تاہم اب سب کچھ بند تھا۔اسی دوران ان خواتین سے رابطہ کرکے ماسک بنانے اور فروخت کرنے کا مشورہ دیا، جو بہت کامیاب رہا۔

فریدہ نے مزید بتایا کہ ان تمام خواتین نے پہلی بار سامان بیچنے کا کام کیا۔ ورنہ وہ چکن ، زردوزی جیسے کام کے کاریگر ہیں ، جنہیں دکاندار سامان دیتے ہیں اور وہ کام مکمل کرنے کے بعد اپنے پیسے حاصل کرتے ہیں۔

کورونا نے انہیں اپنا سامان بنانا اور بیچنا سکھایا۔ اس وقت کی تمام خواتین نے آج مارکیٹ کو سمجھنا شروع کر دیا ہے اور بہت سے لوگوں نے چائے کے ناشتے کا کام شروع کر دیا ہے۔ انہیں اب بھی دکانوں سے زردوزی ، چکن کا کام نہیں مل رہا ہے۔

  کورونا نے ان خواتین کے اندر ایک نئی مہارت پیدا کردی ہے۔ اب وہ سروس کے اندر ایک مارکیٹنگ منیجر اور ماسٹر ٹرینر بن چکی ہے۔  کورونا جیسے نازک وقت میں بھی فریدہ نے اپنے ساتھ جوڑا  اور انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ ہر لمحہ ان کے ساتھ ہیں۔

کورونا سے متاثرہ فریدہ

 فریدہ کورونا وائرس سے متاثر ہوگئیں۔ وہ کورونا کی دوسری لہر میں متاثر ہوئی تھیں۔ اور تقریبا 22 دنوں تک آکسیجن پر تھی۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ اسے کورونا ہو گیا ہے ، وہ اپنے مشترکہ خاندانی گھر کو چھوڑ کر دفتر کے قریب خالی پڑے اپنے بھائی کے گھر آگئیں۔ یہاں تک کہ جب آکسیجن کی کمی کے بعد بولنے کی صلاحیت کم ہونے لگی ، اس وقت بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنے شوہر جلیس احمد کو فون کرکے خواتین کو ہدایت دیتی رہیں۔ تقریبا  ڈیڑھ ماہ تک ان کے شوہر،ان کی ہدایات کے مطابق ان خواتین سے رابطے میں رہے۔

فریدہ کا اعتراف

اس میں  شک نہیں فریدہ اہم کارنامہ انجام دیا ہے، ہر جگہ اب ان کی ہمت اور خدمت کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ مسلم خواتین سے متعلق سروے رپورٹ کی کتاب'رائزنگ بیونڈ سیلنگ پبلی کیشن' (Rising Beyond Ceiling Publication)نے انہیں 100 مسلم خواتین کی فہرست میں شامل کیا ہے، اس میں ان خواتین کو شامل کیا جاتا ہے، جو اپنے اپنے میدان میں غیر معمولی کام کرتی ہیں۔