نئی دہلی: اترپردیش ، تری پورہ اوراتراکھنڈوغیرہ میں مدارس کے خلاف ہونے والی غیر منصفانہ اور امتیازی کارروائی کے خلاف جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی جس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے 14مئی 2025کو جمعیۃعلماء ہند کو اتراکھنڈہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی تھی ، جس پر عمل کرتے ہوئے اتراکھنڈہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی گئی تھی، جس پر آج سماعت ہوئی۔
جاری ریلیز کے مطابق اپنی اس پٹیشن میں جمعیۃعلماء ہند نے کہا ہے کہ اتراکھنڈمدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2016میں رجسٹریشن کو لازمی قرارنہیں دیاگیاہے اورنہ ہی غیر رجسٹرڈ شدہ مدرسوں کو غیر قانونی کہاگیا ہے ، پٹیشن میں اس بات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ حق تعلیم ترمیمی ایکٹ 2012میں واضح طورپر مدرسوں، ویدک پاٹھ شالاؤں اوراس نوعیت کے دیگر تعلیمی اداروں کو اس قانون سے مستثنی قراردیا گیا ہے ، پٹیشن میں سپریم کورٹ کے ایسے متعددفیصلوں کابھی حوالہ دیا گیا ہے جن میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اورانہیں چلانے کے غیر محدود حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ریاست کی مداخلت سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتراکھنڈمیں صرف مدرسوں کو نشانہ بناناغیر آئینی ، امتیازی اوربدنیتی پر مبنی عمل ہے۔
واضح رہے کہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی پٹیشن پر 21اکتوبر 2024کو سابق چیف جسٹس وی آئی چندرچوڑ کی سربراہی والی 3 رکنی بینچ نے مدارس اسلامیہ کے خلاف کسی بھی کاروائی پر اور ان تمام نوٹسوں روک لگا دی تھی جو مختلف ریاستوں خاص پر اترپردیش اور اتراکھنڈ حکومت کے ذریعے مدارس کو جاری کئے گئے تھے،اور اس میں کہا گیا تھا کہ عدالت کی طرف سے مزید نوٹس جاری کئے جانے تک کی مدت کے دوران اس تعلق سے اگر کوئی نوٹس یا حکم نامہ مرکز یا ریاست کی طرف سے جاری ہوتا ہے تو اس پر بھی بدستور روک جاری رہے گی۔
قابل ذکرہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے آج سماعت کی اور مدرسوں کے خلاف کی جاری غیر آئینی کارروائی کے خلاف ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ چیف جسٹس گوہانتن نریندر اور جسٹس سبھاش اپادھیائے نے جمعتہ علماء ہند کی جانب سے پیش ہونے والے سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے کی بحث کی سماعت کے بعد سرکارکو جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔دوران سماعت سنجے ہیگڑے نے عدالت کو بتایا کہ ریاست میں دینی مدارس کو بغیر نوٹس دیئے یکے بعد دیگرے بند کیا جارہا ہے جبکہ مدرسہ ایکٹ کے مطابق مدارس کا رجسٹریشن لازمی نہیں ہے۔ آئین ہند نے بھی اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے کا حق دیا ہے۔سرکاری وکیل نے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس معاملے میں جمعیتہ علماء ہند کو پٹیشن داخل کرنے کا قانونی حق نہیں ہے کیونکہ جن مدارس کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ آج عدالت کے سامنے نہیں ہیں۔ سرکاری وکیل کے اعتراض پر چیف جسٹس نے سنجے ہیگڑے سے سوال کیا کہ عدالت ان کی پٹیشن پر کیوں سماعت کرے کیونکہ وہ بالراست متاثر نہیں ہیں جس پر سنجے ہیگڑے نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مدارس کو بند کرنے کا نہیں ہے بلکہ جس طرح سے سرکار من مانی کاروائی کررہی ہے اس کے خلاف کوئی بھی عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے۔ ہماری یہ درخواست ہے کہ عدالت سرکار کو من مانی کرنے سے روکے اور قانون کی پاسداری کرنے کا پابند بنائے۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ریاست کی جانب سے مدارس کے خلاف کی جارہی کارروائی اقلیتوں کو حاصل آئینی حقوق کے آرٹیکل 14، 15، 19، 25، 26، اور 30 کی خلاف ورزی ہے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے جمعیۃعلماء کیوں کے سوال پر کہاکہ مظلوموں کوانصاف دلانا اورانسانیت کی بنیادپربلاتفریق خدمت کرنا جمعیۃعلماء ہند کا مشن ہے ، متاثرین کی درخواست پر ہی جمعیۃعلماء ہند نے کورٹ کا رخ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ لوگ ناواقف ہیں جبکہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزادکرانے کی مہم علماء ہی نے شروع کی تھی یہ علماء مدرسوں کے ہی پیداوارتھے یہی نہیں دارالعلوم دیوبند قائم ہی اسی لئے کیا گیا تھا تاکہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے اورملک کو آزادکرانے کے لئے مجاہدپیداکئے جائیں جو لوگ مدارس کے خلاف یہ سب کررہے ہیں وہ لوگ مدارس کے کردارسے نابلدہیں جمعیۃعلماء ہند کا تعلق مدارس اسلامیہ سے ہے ، ہمارے سارے اکابریہی سے پڑھ کر باہرنکلے درحقیقت جمعیۃعلماء ہند مدارس اسلامیہ کی آوازاوران کا ذہن ہے ، فرقہ پرست طاقتیں اس تاریخ سے نابلدہیں یہ مدارس کے علماء ہی ہیں جب پوری قوم سورہی تھی توانہوں نے ملک کو غلامی سے آزادکرانے کا صورپھونکاتھا، مدارس اسلامیہ ہماری شہ رگ ہیں اورایساکرکے ہماری شہ رگ کوکاٹ دینے کی منصوبہ بند سازش ہورہی ہے غیر قانونی کہہ کر مدارس کے خلاف کارروائی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی توہین کے مترادف ہے جمعیۃعلماء ہند اس سازش کے خلاف ایک بارپھر اپنی قانونی جدوجہد شروع کرچکی ہے اس لئے کہ مدارس کی حفاظت دین کی حفاظت ہے ، یہ مہم مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر ایک سنگین حملہ ہے ، ہم جمہوریت ، آئین کی بالادستی اورمدارس کے تحفظ کے لئے قانونی اورجمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔