لکھنو: سوبرس پورے کئے زولوجیکل پارک نے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
لکھنو: سوبرس پورے کئے زولوجیکل پارک نے
لکھنو: سوبرس پورے کئے زولوجیکل پارک نے

 

 

ایم مشرا، لکھنو

سوسال قبل29 نومبر1921 کو پرنس آف ویلز نے نوابوں کے شہر لکھنو میں قدم رکھا تھا، ان کے استقبال کےلیے ایک خوبصورت پارک کی تشکیل دی گئی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ پرنس کی آمد کی خبر ملتے ہی بنارس سے درخت اور پودے منگوا کر ایک خوبصورت اور سایہ دار جگہ بنائی گئی۔ پرنس کو جانوروں سے خاص لگاؤ ​​تھا اس لیے اس میں کچھ منتخب جانور بھی رکھے گئے تھے۔ اس طرح تین کلومیٹر کے وسیع و عریض دائرے میں ایک گرین پارک کا وجود عمل میں آیا تھا۔

 چوں کہ درخت بنارس سے لائے گئے اس لیے اسے مقامی افراد اسے بنارسی باغ کے نام سے پکارنے لگے۔ تاہم پرنس آف ویلز کی آمد کے بعد یہ ابتداً پارک بنا اور پھر اسے پرنس آف ویلز زولوجیکل پارک کہا جانے لگا اوراب اسے نواب واجد علی شاہ زولوجیکل پارک یعنی چڑیا گھر کے نام سے جانا ہے۔ اس زولوجیکل پارک میں تقریباً پانچ ہزار درخت ہیں، اس میں مختلف انواع اقسام کے درخت ہیں، جو کہ شہر کے ایک حصے کو ترو تازہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اب اس پارک کو قائم ہوئے سو برس ہوگئے ہیں،اس دوران نوابوں کے شہرلکھنو میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، مگر پارک اپنی جگہ قائم رہا۔ خیال رہے کہ ابتدائی دور میں یہ پارک صرف برطانوی افسروں کے لیے ایک سیر گاہ کے طور پراستعمال کیا جاتا تھا۔ عام آدمی کاسیر و تفریح کے لیے یہاں آنا منع تھا۔

انگریزوں نے اسے بنارسی باغ کے بجائے پرنس آف ویلز زولوجیکل گارڈن رکھ دیا۔ سن2001 میں اسے زولوجیکل پارک کا نام دیا گیااس کے بعد اسے لکھنؤ چڑیا گھر کے نام سے موسوم کیا گیا۔ سن 2015 سے یہ نواب واجد علی شاہ زولوجیکل پارک کےنام سے مشہور ہوا۔

یہاں1000سے زائد جانورموجود ہیں،جن کو دیکھنے کے لیے روزانہ سیکڑوں سیاح آتے ہیں۔

awaz

سن 1925ء میں بلراپور کے راجہ نے ببر شیر کو رکھنے کے لیے چہاردیواری بنوانی۔ جب کہ 1935 میں رانی رام کمار بھارگوا نے طوطےکے لیے ایک لین تیار کروائی۔

اس کے لیے علاوہ یہاں بھالو، شیر اور دیگر جانوروں کے لیے الگ الگ چہاردیواری بنائی گئی ہے۔ سن 2006 تا 2008 کے درمیان یہاں کے دو ہاتھی سومت اور جے مالا ہلاک ہوگئے، وہیں سیاح ہوکو بندر بھی اچانک گم ہو گیا۔

کورونا وائرس کے ایام میں اگرچہ اس پارک کوآن لائن دیکھنے کی سہولت رہی۔ جس سے لوگ لطف اندوز ہوئے۔ لاک ڈاون کھلنے کے بعد اب دوبارہ اس کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔