گواہاٹی: ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ‘ایل جی بی ٹی کیو آئی اے پلس’ کمیونٹی کے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے گھروں، اسکولوں اور محلے میں سب سے زیادہ امتیاز اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایل جی بی ٹی کیو آئی اے پلس’ لفظ مختلف جنسی رجحانات اور صنفی شناخت رکھنے والے افراد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن میں لیسبین، گی، بائی سیکشول، ٹرانس جینڈر، کوئیر یا کوئسچننگ، انٹرسیکس، ای سی سیکشول شامل ہیں، اور دیگر شناخت رکھنے والے افراد کو شامل کرنے کے لیے “پلس” کا نشان بھی لگایا گیا ہے۔
آسام، اروناچل پردیش، منی پور، ناگالینڈ، اوڑیسہ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں ‘ایل جی بی ٹی کیو پلس’ کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کولکتہ کے ادارے ‘بریج’ نے اپنے حالیہ سروے میں 900 سے زائد افراد کو شامل کیا۔ سروے کے نتائج سے پتہ چلا کہ 12 سے 15 سال کی عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے۔
بریج کے بانی اور ڈائریکٹر پِرتھوی راج ناتھ نے بتایا کہ اس کی وجہ سے کئی بچے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور وہ تعلیم، روزگار اور آمدنی کی سیکیورٹی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، 2018 میں ہم جنس پرستی کو جرم کی فہرست سے نکالنے، 2014 میں نیشنل لیگل سروس اتھارٹی (NALSA) کے فیصلے، اور 2019 کے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کے باوجود، ‘ایل جی بی ٹی کیو پلس’ کمیونٹی کے افراد کو تعلیم، صحت کی سہولتوں، کام کی جگہوں اور عوامی زندگی میں مسلسل امتیاز کا سامنا ہے۔
ناتھ نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق ابھی بھی کئی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں اور یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم ‘ایل جی بی ٹی کیو آئی اے پلس’ کمیونٹی کے سامنے آنے والی حقیقتوں اور چیلنجز کو اجاگر کریں اور معاشرہ تمام طبقات کے ساتھ بات چیت کے ذریعے برابری اور شمولیت کی طرف قدم بڑھائے۔
‘ایل جی بی ٹی کیو آئی اے پلس’ حقوق کے ادارے اور سپورٹ گروپ ‘جومونائے’ کی بانی رُدرانی راجکماری نے زور دیا کہ حکومت اور تمام متعلقہ فریقین کو امتیاز کو کم کرنے اور مساوی حقوق کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی کوششیں کرنی چاہئیں۔