معروف عالم دین مولانا حبیب الرحمن اعظمی کا انتقال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-05-2021
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

 

 فیروزخان /دیوبند

دارالعلوم دیوبند کے ممتاز استاذ،کئی اہم کتابوں کے مصنف،علم حدیث و فن اسماءالرجال میں دست گاہ رکھنے والے عالم مولانا حبیب الرحمن اعظمی کاتقریباً 77 سال کی عمر میں اپنے وطن اعظم گڑھ میں انتقال ہو گیا ۔ مرحوم کافی وقت سے بےمار چلے آ رہے تھے اور اعظم گڑھ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے مگر جاں بر نہ ہو سکے۔مولانا کا تعلق جگدیش پور اعظم گڑھ سے تھا، 1945میں پیدایش ہوئی۔

مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے مطلع العلوم بنارس اور دارالعلوم میں ابتدائی و ثانوی عربی تعلیم حاصل کی اور 1962میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی ، 1965میں جامعہ اسلامیہ بنارس میں استاذ بنائے گئے،قریب40 سالوں سے دارالعلوم دیوبند میں علمی خدمات انجام دے رہے تھے،دارالعلوم دیوبند میں مشکوة المصابیح اور سنن ابوداو جیسی اہم کتابیں ان کے زیر تدریس رہیں ،مولانا مرحوم تقریبا پینتیس سال دارالعلوم کے رسالہ " ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ” کے مدیر بھی رہے۔مولانا حبیب الرحمن اعظمی دارالعلوم دیوبند سے شائع ہونے والی ماہانہ میگزین دارالعلوم دیوبند کے چیف ایڈیٹر اور استاذ حدیث تھے۔مرحوم طلبہ کے درمیان مقبول ترین اساتذہ میں سے تھے، مولانا مرحوم تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے ،آپ کی کئی کتابیں تا ریخ اور دیگر موضوعات پر عوام و خواص کے درمیان مقبول ہیں۔-

مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے علمِ حدیث کے موضوع پربھی کئی اہم کتابیں لکھیں،جن میں امام ابوداو د کے اساتذہ پر عربی تصنیف، علم حدیث کی حجیت پر ایک رسالہ، انہوں نے قریب تین عشروں تک ماہنامہ " دارالعلوم دیوبند” کی ادارت کی، جس میں شائع ہونے والے علمی، تاریخی و سوانحی مضامین مقالاتِ حبیب کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہوئے۔ پہلی جلد میں ہندوستان میں احیاے علم و فکر، صحابہ کرام کی عظمت اور فرقِ باطلہ کے تعاقب پر مشتمل مضامین شامل ہیں، دوسری جلد میں مختلف عبادتوں اور سماجی زندگی سے متعلق مسائل پر دقیق بحثیں کی ہیں، تیسری جلد میں سیرت پاک، ازواج مطہرات، تعدد ازدواج، اجودھیا کی تاریخی حیثیت، امام ابو حنیفہ، اجودھیا کے مشاہیر علما و مشائخ اور دیگر ارباب فضل و کمال کا تذکرہ ہے۔ ان کے علاوہ بھی مولانا نے کئی اہم علمی و فکری کتابیں تصنیف کیں ۔

ان کا درسِ حدیث اپنے خاص رنگ و آہنگ کی وجہ سے طلبہ و علما میں بے پناہ مقبول تھا۔ جب وہ مسندِ تدریس پر بیٹھے ہوتے اور بولنا شروع کرتے تو معلومات کا آبشار بہتا اور فن حدیث کی باریکیوں اور لطائف و نکات پر دلچسپ و معلومات افزا گفتگو کرتے،انہوں نے اپنی زندگی رضائے الہی کے لئے وقف کی ہوئی تھی ۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے انتقال کی خبر ملتے ہی دارالعلوم دیوبند ،دارالعلوم وقف دیوبند ،دارالعلوم زکریا دیوبند اور جامعتہ الشیخ حسین احمد المدنی خانقاہ دیوبند میں قرآن خوانی اور ایصال ثواب کا اہتمام کیا گیا نیز ان کی مغفرت اور جنت میں درجات کی بلندی کے لئے دعاءبھی کرائی گئی ۔

اپنے تعزیتی پیغام میں دارالعلوم دےوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی نے مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی وفات کو دارالعلوم دیوبند کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ مرحوم موجودہ دور میں اسلاف کے سچے جانشین اور وارث تھے ،اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا ءفرمائے ۔دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے مرحوم کو جن ظاہری معنوی خصوصیات و کمالات سے نوازا تھا وہ بہت ہی کم لوگوں کے حصہ میں آتے ہیں ،حق تعالی مرحوم کو انکی دینی و روحانی خدمات کے طفیل جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا ءفرمائے ۔دارالعلوم زکریا دےوبند کے مہتمم مولانا مفتی محمد شریف خان قاسمی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مو لانا حبیب الرحمن اعظمی کی رحلت سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے ،ان کی رحلت سے جو خلاءپیدا ہوا ہے وہ علمی و ادبی دنیا کے لئے ایسا خسارہ ہے جس کی بھرپائی ناممکن ہے ۔

علاوہ ازیں دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالافتاءکے نگراں مولانا معین الدین قاسمی ،عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی ،دارالعلوم فاروقیہ دیوبند کے مہتمم مولانا نور الہدی قاسمی بستوی ،مدرسہ اسلامیہ اصغریہ دیوبند کے مہتمم مولانا سید جمیل حسین ،اسلامی اسکالر مولوی سکندر خان ،دارالعلوم اشرفیہ دیوبند کے مہتمم مولانا سالم اشرف قاسمی ،معروف ادیب و قلم کار سید وجاہت شاہ ،نوجوان شاعر تنویر اجمل دیوبندی ،دلشاد خوشتر ،شمیم کرتپوری ،مولوی سعید معین اور سول کورٹ دیوبند کے وکیل نسیم انصاری نے بھی تعزیت کا اظہار کیا اور مرحوم کے لئے مغفرت اور پسماندگان کے لئے صبر جمےل کی دعا ءکی ۔