کابل حملہ:ہندوستان کے معروف اسلامی دانشوروں نے کی مذمت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-05-2021
کابل کے ایک سکینڈری ا سکول کے قریب ہونے والےدھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زائد ہو چکی ہے۔
کابل کے ایک سکینڈری ا سکول کے قریب ہونے والےدھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زائد ہو چکی ہے۔

 

 

 شاہد حبیب /نئی دہلی

گزشتہ سنیچر کو کابل کے ایک سکینڈری ا سکول کے قریب ہونے والےدھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زائد ہو چکی ہے۔ حکام کے مطابق دھماکے اس وقت ہوئے جب طلبا ا سکول کی عمارت سے باہر نکل رہے تھے جس کی نتیجے میں دھماکے سے متاثر ہونے والے میں زیادہ تر اسکول کی طالبات ہیں۔ابھی تک کسی جماعت یا مسلح گروہ نے افغانستان کے علاقے دشت برچی میں ہونے والے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ادھر دوسری طرف افغان طالبان نے اس دھماکے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

اس بزدلانہ حملے کی چاروں طرف سے مذمت کی جا رہی ہے ۔ ہندوستانی دفتر خارجہ نے بھی اس حملے کی شدید مزمت کی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کے معروف اسلامی اسکالر ز نے بھی اس بیہیمانہ حملے کی یک زبان ہو کر مذمت کی ہے ۔

نئی دہلی کی تاریخی فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم احمد نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبات کے اسکول میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا اور اس میں طالبات بھی زخمی ہوئیں نیز دیگر افراد بھی جان بحق ہوئے - یہ انتہائی افسوسناک ہے- اس کے پیچھے کون ہے اس کا کہنا بہت مشکل ہے۔ آج کل دہشت گردی عام سی بات ہو گئی ہے - ہم اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

awazurdu

                    مولانا مفتی مکرم احمد اور پروفیسر اختر الواسیع                                                                     

حملہ وروں نے رمضان کے مقدس مہینے کی حرمت ہو بھی پامال کیا ہے ۔ مفتی مکرم احمد نے مزید کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم، قطع نظر اس کے کہ وہ دینی تعلیم ہو یا دنیوی ، اس میں اسلام کی کوئی ممانعت نہیں ہے- علم ہمارے لئے بہت ضروری ہے - اگر کوئی تنظیم جو لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف ہے ، اس کا یہ موقف کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے- لڑکییوں کی تعلیم اور جدید دور سے ان کی آگہی آج کے دور میں ضرور ہونی چاہیے, تاکہ وہ اپنی زندگی با عزت طور سے گزار سکیں - اس کے ساتھ یہ چیز بھی دھیان میں رکھنی ہوگی کہ افغانستان کے حالات میں حملوں اور بم دھمماکوں کا ہونا معمولی بات ہے۔

دوسری جانب معروف اسلامی اسکالر اور مولانا آزاد اردو یونیورسٹی جودھپور کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے بھی اس بزدلانہ حملے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ساتھ امن اقدامات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، اس طرح کے حملے ان شر پسند تخریبی عناصر کی تخریبی کوششوں کا نتیجہ ہیں جو امن کے دشمن ہیں ۔

پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہا کہ رمضان المبارک میں افطار کے وقت کیا جانے والا یہ بزدلانہ حملہ مذہبی اعتبار سے گناہ کبیرہ میں شامل ہے - قران میں الله تعالیٰ نے کھلے الفاظ میں بیان کر دیا ہے کہ کسی ایک معصوم اور بے قصور کی جان لینا ساری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے - جبکہ یہاں پچاس سے زائد معصوم بچیوں اور استانیوں کو دہشت و وحشت کا نشانہ بنایا گیا - ایسا گھناونا کام کرنے والے یقینی طور پر الله کے باغی ہیں - یہ حملہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ اس طرح کے دہشت گرد گروہ نہ صرف انسانیت کے بلکہ حصول علم کے بھی دشمن ہیں۔

پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے کہ موت کا یہ شرمناک کھیل پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی بخاری شریف میں درج اس حدیث کی صرِیحًا خلاف ورزی اور نا فرمانی ہے جس میں سراپا رحمت جناب محمد صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گالی دینا فسق ہے اور قتل کرنا کفر ہے۔

معروف علم دین مفتی منظور ضیائی نے آواز دی وائس سے گفتگو میں کہا کہ کسی بھی بے گناہ کی موت ک جایز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ نبی اکرم صل الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله کا فرمان ہے کہ ایک انسان کی جان لینا ساری انسانیت کی جان لینے کے مترادف ہے ۔ بے گناہوں کو مارنا کسی بھی صورت میں جایز نہیں، ہم اس کی پوری طرح مذمت کرتے ہیں ۔ ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات کی جس میں بے گناہوں کو مارا جاتا ہے، سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔