محمدﷺ :کنورمہندرسنگھ بیدی کی نظر میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 18-10-2021
محمدﷺ :کنورمہندرسنگھ بیدی کی نظر میں
محمدﷺ :کنورمہندرسنگھ بیدی کی نظر میں

 

 

awaz

ثاقب سلیم، نئ دہلی

 ہم ایک ایسے وقت میں جی رہ رہے ہیں جب کرشن ہندو، بدھ بدھسٹ، نانک سکھ، مسیح عیسائی اور محمد ایک مسلمان ہیں۔ لوگوں نے ماضی کے عظیم مفکرین کو ان کی تعلیمات کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کے غالب گروہ کی بنیاد پر پہچاننا شروع کر دیا ہے جو اس وقت اپنے مسلک پر عمل پیرا ہیں۔

اگرچہ دورِ جدید میں، ہمیں ایسا لگتا ہے، تاہم یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ماضی میں ایسے بے شمار لوگ تھے جنھوں نے اپنے مذہبی عقائد سے قطع نظر عظیم انسانوں کی تعظیم میں اپنے تمام الفاظ صرف کر دیے تھے۔

عید میلاد النبی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی سالگرہ کے موقع پر میں اپنے قارئین کے سامنےایک عقیدت مند سکھ شاعر کے بات کرنا چاہوں گا، جنھوں نے پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت میں اشعار کہے ہیں۔ وہ سکھ کوئی اور نہیں اردو زبان کے معروف شاعر سردار کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ہیں۔

کنورسنگھ بیدی سحر کے مطابق سکھ مذہب میں محمد، علی، حسین اور اسلام کو نانک کی طرح احترام کرنا سکھایا جاتا ہے کیونکہ تمام مذہبی عقائد انسانوں کو خدا کی طرف لے جاتے ہیں۔

اپنی ایک نظم میں انھوں نے محمدﷺ کی تعریف یوں کی ہے:

ہم کسی دن سے ہوں قائل کردار تو ہیں

ہم ثناء خواں شاہِ حیدر قررار تو ہوں

نام لیوا ہے محمد کے پرستار توہیں

یعنی مجبور پائے احمد مختارتو ہیں

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تونہیں

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے جس عقیدت و احترام کے ساتھ مندرجہ بالا نظم محمدﷺ کی تعریف کی ہے، وہ کسی مسلم شاعرکی قلم سے نکلی نظموں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔

وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ محمدﷺ سے محبت کرنے کے لیے اور ان کے اعلیٰ نظریات کواپنانےکےلیےکسی کو مسلمان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ ایک غیر مسلم بھی ان کی تعلیمات سےمتاثرہوکران کی مدح کرسکتا ہے۔ ایک دوسری نظم نزولِ پیغمبر کنورمہندرسنگھ بیدی سحرلکھتےہیں کہ محمد ﷺ کوزمین پراس وقت بھیجا گیاجب معاشرہ برائی سے بھرگیا تھا اور اچھائی کی کوئی امید نہیں بچی تھی؛انہوں نے لکھا:

ہو جئے جب کے خلق خدا مائلِ گناہ

جب لوگ بھول جائیں محبت کی رسم و راہ

آنکھوں میں نورِ قلب میں خورسندگی نہ ہو

بندے تو ہو خدا کے مگر بندگی نا ہو

معاشرے میں پھیلی ہوئی مصیبت والم کے دور میں خدا فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنے نبی کو اپنی قوم کے درمیان بھیجے۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحران حالات یوں قلم بند کیا ہے:

 خلق خدا کو راستے پہ لانے کے واسطے

سوتوں ہووں کو پھر سے جگانے کے واسطے

کنور مہندر سنگھ بیدی سحرمزید کہنا تھا کہ ایسے وقتوں میں جب لوگ آپس میں لڑ رہے تھے، خود اپنا وجود بھول گئے تھے، اپنے ہی بھائیوں کو قتل کر رہے تھے حتی کہ وہ ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے۔ خدا نے ان کے درمیان ایک نبی بھیج کر ان کو درست کرنے کا فیصلہ کیا۔ خدا انسانوں میں انسانیت کو واپس لانا چاہتا تھا اوراپنے نبی کے ذریعے وہ انسانوں میں محبت وبھائی چارہ قائم کرنا چاہتا تھا اورایک سچے مذہب کی خدا معاشرہ میں حکمرانی قائم کرنا چاہتا تھا۔

سحرمزید لکھتے ہیں کہ خدا نے پھر ایک عظیم اور پاکیزہ روح کو بھیجا:

مردان پاک باز تھے، عابد تھے، نیک تھے

نانک، مسیح، کرشن، محمد سب ایک تھے

ان کے علاوہ سحر نے علی ، حسین اور دیگر مسلم صوفیوں کی تعریف میں بہت سے اشعار کہے ہیں۔

آج ہمیں ان چیزوں کو از سر نودیکھنے کی ضرورت ہے جب لوگ مذہبی تعصبات کی عینک استعمال کیے بغیر عظیم انسانوں کی تعلیمات کو قدر نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔