خورشید ملک
کلکتہ میں اردو اکیڈمی، جو ایک سرکاری ادارہ ہے، کی جانب سے مشہور شاعر، نغمہ نگار اور سکرین رائٹر جاوید اختر کو مشاعرے کی صدارت کے لئے مدعو کیا گیا۔ اس دعوت پر کچھ مسلمانوں اور علماء نے شدید اعتراض اٹھایا اور جاوید اختر کو ملحد قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف بائیکاٹ کی دھمکی دی۔آخر کار اردو اکیڈمی کو پیچھے ہٹنا پڑ گیا ،ان کا موقف تھا کہ جاوید اختر نے مبینہ طور پر اللہ کی شان میں گستاخی کی ہے، اس لئے انہیں اس پروگرام میں نہیں بلایا جانا چاہئے اور ان کی دعوت منسوخ کی جائے۔ اردو اکیڈمی نے وہی کیا جس کا مطا لبہ کیا جارہا تھا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا علماء کا یہ رویہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق درست تھا؟
قرآن ہر قسم کے اختلافات اور تنازعات سے نمٹنے کے لئے حکمت، نرمی، اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کی ہدایت دیتا ہے۔ سورہ النحل (آیت 125) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ" ترجمہ: "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو بہتر ہو۔"
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص پر عقیدے کے حوالے سے اعتراض ہے تو اسے حکمت اور اچھے انداز سے سمجھانا چاہئے، نہ کہ اس کا بائیکاٹ کرنا یا اس کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنا۔ جاوید اختر کے ملحدانہ خیالات یا ان کے بیانات پر اگر علماء کو اعتراض تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ ان سے براہ راست مکالمہ کرتے یا ان کے خیالات کا عقلی اور شرعی دلائل سے جواب دیتے، نہ کہ بائیکاٹ کی دھمکی دیتے۔
مزید برآں، سورہ فصلت (آیت 34) میں ارشاد ہے:
"وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ" ترجمہ: "نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہتر ہو، تو وہ شخص جو تمہارا دشمن تھا، گویا تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔"
یہ آیت ہدایت دیتی ہے کہ برائی کا جواب نیکی سے دینا چاہئے ۔اگر جاوید اختر کے خیالات کو گستاخانہ سمجھا جاتا ہے تو ان کا مقابلہ اچھے اخلاق اور دلیل سے کرنا چاہیئے نہ کہ دھمکیوں یا بائیکاٹ سے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیرت سے واضح کیا کہ کافروں اور مشرکین کی گستاخیوں کے باوجود صبر اور نرمی سے پیش آنا چاہیئے ۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مومن وہ نہیں جو طعنہ زن ہو، لعنتی ہو، فحش گو ہو یا بدزبان ہو۔" (جامع ترمذی(
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ مومن کا کردار بدزبانی یا دھمکیوں سے پاک ہونا چاہئے ۔علماء کو جاوید اختر کے خیالات کا مقابلہ علمی اور اخلاقی انداز سے کرنا چاہئے تھا، نہ کہ ان کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنا۔ مزید برآں، صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرو، مشکل نہ کرو، اور لوگوں کو خوشخبری دو، نفرت نہ دلاؤ۔"
اس سے علماء کی ذمہ داری عیاں ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو نفرت یا دشمنی کی طرف نہ دھکیلیں، بلکہ انہیں دین کی طرف راغب کریں۔
علماء کا رویہ: کیا یہ درست تھا؟
جاوید اختر کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ملحد ہیں یا انہوں نے اللہ کی شان میں گستاخی کی، ایک سنگین بات ہے۔ اگر جاوید اختر نے کوئی متنازع بیان دیا (جیسا کہ بعض ذرائع میں ذکر ہے کہ ان کے بیانات نے تنازعات کو ہوا دی)، تو علماء کو چاہئے تھا کہ وہ ان سے مکالمہ کرتے، ان کے خیالات کو سمجھتے، اور پھر شرعی دلائل سے ان کا جواب دیتے۔ بائیکاٹ کی دھمکی دینا یا اردو اکیڈمی پر دباؤ ڈالنا کہ وہ ان کی دعوت منسوخ کرے، نہ صرف غیر ضروری تھا بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے جو صبر، حکمت، اور مکالمے کی تلقین کرتی ہیں۔
مزید یہ کہ اردو اکیڈمی ایک سرکاری ادارہ ہے جو ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے کام کرتا ہے۔ جاوید اختر کو مشاعرے کی صدارت کے لئے بلانا ان کے ادبی کردار کی وجہ سے تھا، نہ کہ ان کے ذاتی عقائد کی وجہ سے۔ علماء کو چاہئے تھا کہ وہ اس موقع کو غنیمت جانتے اور دعوتِ دین کے لئے استعمال کرتے، جیسے کہ جاوید اختر سے مکالمہ کر کے ان کے خیالات کو سمجھنے اور انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کی کوشش کرتے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں، علماء کا جاوید اختر کے خلاف بائیکاٹ کی دھمکی دینا اور اردو اکیڈمی پر ان کی دعوت منسوخ کرنے کا دباؤ ڈالنا میری نظر میں درست نہیں تھا۔ قرآن حکمت اور نرمی سے دعوت دینے کا حکم دیتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ بدسلوکی یا گستاخی کا جواب بھی اچھے اخلاق سے دینا چاہئے ۔علماء کو اپنے کردار اور علمی دلائل سے لوگوں کے دلوں کو جیتنا چاہئے ، نہ کہ دھمکیوں یا بائیکاٹ سے خوف پھیلانا چاہئے ۔اگر جاوید اختر کے خیالات یا بیانات میں کوئی غلطی تھی، تو اسے شرعی طریقے سے ثابت کر کے مکالمے کے ذریعے حل کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح کا رویہ نہ صرف اسلام کی عالمگیر تعلیمات کی عکاسی کرتا بلکہ معاشرے میں امن اور ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتا۔
مصنف پبلیکیشنز ڈویژن ( وزارت اطلاعات و نشریات) میں جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں ، جو پریس انفارمیشن بیورو کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر بھی ہیں