مسرت :اسٹریٹ لائٹ سے اسمارٹ کلاس تک

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-07-2022
مسرت :اسٹریٹ لائٹ سے اسمارٹ کلاس تک
مسرت :اسٹریٹ لائٹ سے اسمارٹ کلاس تک

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

کشمیراب بدل رہا ہے،نئی نسل میں ایک نیا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے، وہ کچھ نیا کر گزرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرچکے ہیں، شاید یہی سبب ہے کہ وادی کے کسی نہ کسی حصے ہے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے ذریعہ کئے گئے کارنامے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

کشمیر کی ایسی ہی ایک کامیاب کاروباری خاتون مسرت فاروق ہیں، ان کا نام مسرت ہے، تاہم ان کے سفر کی ابتدا صعوبتوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ مسرت کوئی دولت مند والدین کی اولاد نہیں تھی، نہ انہییں تعلیمی مراحل کے دوران کوئی سہولتیں ملیں، تاہم انہوں نے اپنی تگ و دو کے ساتھ تمام تعلیمی مراحل پورے کئے، اور آج جب کہ ان کی عمر 29 کی ہو چکی ہے،وہ وادی کشمیرکی سب سے کم عمر تعلیمی کاروباری شخصیت بن گئی ہیں۔ 

وہ اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں دو کمرے والے بناپلستر کے ایک مکان میں رہا کرتی تھیں،وہ زیادہ تراسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں پڑھا کرتی تھیں، کیوں کہ ان کے گھر میں الیکٹرسٹی کی سہولت نہیں تھی۔ آج وہ سری نگر کے کرن نگر میں 'اسمارٹ کلاسز ہوم ٹیوشن سنٹر' کی بانی ہیں۔ ان کے اسٹارٹ اپ میں پری نرسری سے لے کر  بارہویں جماعت تک کے طلباء کو ہوم ٹیوٹر کی خدمات پیش  کی جاتی ہے۔ سنہ 2020 میں صرف تین اساتذہ کے ساتھ انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا۔ فی الوقت تقریباً 40 ٹیوٹرز ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان  کی ہمت اور عزم نے حال ہی میں ان کی ملاقت جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ہوئی۔ ایل جی منوج سنہا نے انہیں "جموں و کشمیر کی پہلی خاتون سب سے کم عمر تعلیمی کاروباری شخصیت" قرار دیا۔

سری نگر کے پرانے شہرکےعیدگاہ محلے سے تعلق رکھنے والی مسرت کا بچپن بہت ہی مشکل میں بیتا۔ انہوں نےغربت کا سامنا کیا اورانہیں کھیلنے کے لیے بھی وقت نہیں ملا۔ جب وہ اپنی ہم عمرلڑکیوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا کرتی تھیں تو ان کی چاہت بھی ہوتی تھی کہ وہ بھی ان کے ساتھ وقت گزاریں۔ اس موقع پر ان کی والدہ انہیں سمجھایا کرتی تھیں کہ ہماری معاشی حالت اچھی نہیں ہے، اس لیے اسے خود کو کچھ بنانے کے لیے پڑھنا ہوگا۔ کھیل میں وقت نہیں برباد کرنا ہے۔ اچھی تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔

مسرت فاروق نے دسویں جماعت کے دوران ہی گھر کی روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیوشن کلاسز لینے لگی تھی۔ 

awazthevoice

مسرت فاروق

جب وہ گریجویشن کر رہی تھی، ان کے والد ایک مہلک حادثے کا شکار ہو گئے اور بستر پر پڑ گئے۔اس کی وجہ سے وہ اپنے خاندان کی واحد سہارا بن گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے دن رات کام کرکے گھر کا انتظام سنبھالا اور اپنے بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات کا انتظام کیا۔اس کے علاوہ، میری مدد میری والدہ کے بھائی یعنی ماموں نے بھی کی۔ خیال رہے کہ مسرت فاروق نے ذاتی خرچ سے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (IGNOU)سے آرٹس میں بیچلر اور علم نفسیات میں پوسٹ گریجویشن مکمل کیا۔

یہ 2019 کا زمانہ تھا،جب مسرت فاروق کو یہ احساس ہوا کہ طلبا اور والدین کو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کا مسئلہ تھا۔ جب کہ طلباء کی اکثریت آن لائن کلاسز میں توجہ نہیں دے پارہی تھی۔ ان میں سےایک اچھی تعداد کے پاس اسمارٹ فون بھی نہیں تھے۔ تاہم مسرت فاروق نے اس مسئلہ کا بھی حل نکال لیا۔  ایک نئے عزم کے ساتھ مسرت نے مقامی لوگوں کے ذریعے اس بات کو پھیلایا کہ اسمارٹ فون کے بغیر طلبا کو کس طرح تعلیم دی جا سکتی ہے، اس کے لیے انہوں نے مقامی کمیونٹی ہال کا سہارا لیا۔ جہاں وہ طلبا کو پڑھانے لگیں۔ جیسے جیسے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا انہوں نے تدریسی خدمات کو مزید پیشہ ورانہ طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ طلبا کواپنے پاس بلانے کے بجائے، میں نےسوچا کہ کیوں نہ ہم خود طلبہ کے پاس جائیں۔ پھرمیں نے چند تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مقرر کیا اور انہیں پرائیویٹ ٹیوشنز کے لیے مختلف مقامات پر تفویض کیا۔ کچھ ہی عرصے میں بچوں کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی دیکھنےکو ملی۔ فی الوقت مسرت فاروق کےٹیوشن سنٹر سے تقریباً300 طلباء وابستہ ہیں۔اس کےعلاوہ وہ پسماندہ بچوں کو مفت پڑھاتی ہیں اور ان کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرتی ہیں۔ مسرت کہتی ہیں کہ اپنی جدوجہد سے میں نے یہی سیکھا ہےکہ ہوم ٹیوشن تمام والدین کےلیےقابل برداشت نہیں ہے۔

manoj sinha

مسرت وزیرخزانہ نرملہ سیتارمن اور ایل جی منوج سنہا کے ساتھ

ان کا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی بچے کو اس کے مالی مسائل کی وجہ سے تعلیم سے روکا نہیں جانا چاہیے۔ اس لیے میں ایسے بچوں کو بغیر کسی معاوضے کے پڑھاتی رہتی ہوں ۔ ان کا خیال ہے کہ ایک عورت کے اندر بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے، اگر وہ کسی چیز کو پورا کرنے کا عزم کر لے تو وہ کامیاب ہو جاتی ہے۔آج بھی ایک عورت کو پدرانہ نظام سے مقابلہ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اکیسوی صدی عیسوی میں بھی انہیں ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مرد کے مقابلہ میں بہت سے اداروں میں عورت کو کم تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ تاہم اس کے اندر ہمت واستقلال ہے، اس لیے عورت ہر میدان میں پیدرانہ نظام کو زیر کرتی ہوئی آگے بڑھتی جاری ہے۔

میں ایسی تمام خاتون کے عزم و ہمت کو سلام کرتی ہوں اور ان سب کو میرا پیغام یہی ہے کہ وہ بھی ہمت کریں، آگے بڑھیں، دنیا ان کے قدموں میں ہوگی۔