اقلیتوں اور غیر مقامی مزدوروں کی حالیہ ہلاکتیں: کشمیری علما کیا کہتے ہیں؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 25-10-2021
اقلیتوں اور غیر مقامی مزدوروں کی ہلاکتیں: کشمیری علما کیا کہتے ہیں؟
اقلیتوں اور غیر مقامی مزدوروں کی ہلاکتیں: کشمیری علما کیا کہتے ہیں؟

 

 

رضوان شفیع وانی،سری نگر

وادی کشمیر میں حالیہ ہلاکتوں کی وجہ سے اقلیتوں اور غیر مقامی مزدوروں و کاریگروں میں خوف و دہشت پھیل گئی ہے۔ جہاں ایک طرف سیاستدانوں کا ماننا ہے کہ اقلیتوں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہیں مقامی کشمیریوں کے ساتھ ساتھ سماجی ومذہبی رہنما بھی ان 'ٹارگٹ کلنگز' سے غمزدہ ہیں۔

وادی کشمیر میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران اب تک نامعلوم بندورق برداروں کے ہاتھوں بارہ عام شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں اقلیتی فرقوں سے وابستہ دو ٹیچر، ایک مشہور دوا فروش اور پانچ غیر مقامی مزدور شامل ہیں۔

وادی کے نامور علما کرام نے اقلیتوں اور غیر مقامی باشندوں کی ہلاکتوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کشمیر کے صدیوں پرانے بھائی چارے اور مذہبی رواداری کو زک پہنچا ہے۔ جموں و کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام کہتے ہیں کہ اقلیتی فرقوں کے لوگوں کی ہلاکتیں مقامی مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔

انہوں نے آواز دی وائس سے گفتگو میں کہا: 'کشمیر میں جو ہلاکتیں ہو رہی ہیں، میں ان کے خلاف ہوں۔ میں بار بار یہی کہتا ہوں کہ اسلام کسی بھی صورت میں کسی کے قتل کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ میں ہلاک شدہ لوگوں کے اہلخانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔'

مفتی اعظم نے بتایا کہ چند لوگ کشمیریوں کو ان ہلاکتوں کے لیے قصوروار ٹھہرا رہے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ 'کسی بھی کمیونٹی کو ان ہلاکتوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے۔ان ٹارگیٹ کلنگز کا کشمیریوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔'

مفتی ناصر الاسلام نے گورنر انتظامیہ اور حکومت ہند سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان ہلاکتوں کی غیر جانبدارانہ اور شفاف انداز میں تحقیقات کی جانی چاہیے ، تاکہ پتہ چلے کہ ان سازشوں کے پیچھے کون ہیں۔

'کسی بھی کمیونٹی میں تخریب کار ہو سکتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں کشمیری پنڈت کی نقل مکانی کرنے کے باوجود 50 ہزار سے زیادہ پنڈت وادی کے مختلف علاقوں میں رہے۔ ان کے ساتھ آج تک کسی نے چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور نہ ہی انہیں کسی طرح کی تکلیف پہنچائی گئی۔ وہ بنا کسی خوف کے اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں۔'

ناصر الاسلام نے بتایا کہ یہاں کے مقامی مسلمان اقلیتی طبقے کے لوگوں کی مدد کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ان کے آخری رسومات تک مسلمان ہی ادا کرتے آئے ہیں۔

'میں خود مکھن لال بندرو اور پرنسپل کے گھر گیا اور ان کے اہلخانہ سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ پورا کشمیر اس حرکت کو قابل مذمت سمجھتے ہیں اور کشمیری مسلمان آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

کچھ لوگ پنڈتوں اور مسلمانوں کے بیچ انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہم ہرگز ہونے نہیں دیں گے۔'

بہتر یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا منصفانہ حل ڈھونڈ نکالا جائے۔ جب اس مسئلے کا حل سامنے آ جائے گا تو ہلاکتوں اور قتل غارت کا سلسلہ از خود ختم ہو جائے گا۔'

یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں حالیہ ہلاکتوں کے بعد غیر مقامی مزدوروں اور کاریگروں میں خوف و ہراس کا ماحول بنا ہوا ہے۔ بیشتر مزدرو واپس اپنے گھروں کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ مزدوروں کی نقل مکانی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مفتی ناصر الاسلام نے کہا کہ یہاں گولیاں چلتی تھیں، گرینڈ بھی پھٹتے تھے تب بھی وہ دبئی یا کسی اور جگہ جانے کے بجائے کشمیر آنے کو ترجیع دیتے تھے۔'

ان ہلاکتوں کے بعد یقیناً ان کے اندر خوف پیدا ہوا ہے اور اس کا ہمیں احساس ہے۔ ہم ان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیر چھوڑ کرواپس نہ جائیں۔ انہیں تحفظ فراہم کرنا ہماری ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی۔'

کشمیر کے شیعہ مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم 'انجمن شرعی شیعان جموں و کشمیر' کے صدر سید آغا سید حسن نے ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ ایک سازش ہی لگ رہی ہے۔

انہوں نے آواز دی وائس کو بتایا: 'یہ ایک مذموم سازش ہے جس کے ذریعے کشمیر اور کشمیریت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شرپسند عناصر کی جانب سے ہلاکتوں کی یہ کارروائیاں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کے لیے انجام دی جا رہی ہیں تاکہ کشمیر کی دیرینہ آپسی بھائی چارے کی روایت کو ٹھیس پہنچائی جائے۔'

کشمیر کے معروف وکیل اور تجزیہ کار ریاض خاورنے ان ہلاکتوں کو بزدلانہ حرکت قرار دیتے ہوئے حکومت ہند اور جموں و کشمیر انتظامیہ سے اپیل کی کہ ان ہلاکتوں کی تحقیقات کی جائے۔

انہوں نے آواز دی وائس سے گفتگو میں کہا: 'بہت افسوس ناک بات ہے کہ بے گناہوں کو مارا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ان ہلاکتوں کا مقصد کشمیری قوم کو بدنام کرنا ہے۔ 'کشمیر ایک تنازع زدہ خطہ ہے اور یہ سازشوں کا گڑھ رہا ہے۔

'ایسی ٹارگیٹ کلنگز سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لوگوں کو اعتماد میں لانے کی ضرورت ہے جب تک لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جائے اور انہیں جمہوری حقوق فراہم نہیں کیا جائے، تب تک جو بھی اس طرح کی بزدلانہ حرکت کر رہے ہیں انہیں حمایت حاصل ہوتی رہے گی۔'

ریاض خاور نے بتایا کہ یہ فرقہ وارانہ ہلاکتیں نہیں ہیں، بلکہ کشمیر کے بھائی چارے کو زک پہنچانے کی کوشش ہے۔ ان ہلاکتوں میں کشمیر کے عوام کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ 'ہر ایک کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ کشمیرآئیں اور یہاں کام کریں۔ غیر مقامی مزدوروں ہمارے مہمان ہیں ہم ان کے بغیر نامکمل ہیں اور وہ ہمارے بغیر نامکمل ہیں ہم ان سے اپیل کرتے ہیں کہ واپس نہ جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مزدوروں کو اعتماد میں لانے کی ضرورت ہیں اور انہیں یقین دلانا ہوگا کہ وہ کشمیر میں محفوظ ہیں۔ 'کشمیری عوام کو چاہیے کہ حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کی مدد کریں اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ہم ان کے دکھ سکھ میں ہمیشہ شریک ہیں اور رہیں گے۔'

متحدہ مجلس علما جموں و کشمیر کے ترجمان مولانا ایم ایس رحمان شمس نے اقلیتی طقبے کے لوگوں اور غیر مقامی مزدوروں کی ہلاکت کو انتہائی وحشیانہ حرکت قرار دیا ہے۔

انہوں نے آواز دی وائس کو بتایا: 'کسی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جن قوتوں نے یہ کام انجام دیے ہیں وہ قابل مذمت ہیں ان کی یہ بزدلانہ حرکت ملت کشمیر کبھی معاف نہیں کرے گی۔'

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ان ہلاکتوں کی تفیش کے لیے تہہ تک جائے، تاکہ ہلاکتوں کی سازش کا پردہ فاش کیا جاسکے۔' واضح رہے کہ ان ہلاکتوں کی تحقیقات کی ذمہ داری این آئی اے کو سونپی جا رہی ہے۔

این آئی اے کے مطابق جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے کی گئی ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان ہلاکتوں کے پیچھے ایک بڑی دہشت گردانہ سازش کارفرما ہے۔