نئی دہلی: ملک کی اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ نے منگل کے روز ملک بھر کی ماتحت عدالتوں کے عدالتی افسران کے کیریئر میں ٹھہراؤ (Promotion Stagnation) سے متعلق معاملات کو پانچ رکنی آئینی بنچ کے سپرد کر دیا۔ چیف جسٹس بی۔ آر۔ گَوئی اور جسٹس کے۔
ونود چندرن پر مشتمل بینچ نے عدالتی افسران کی سروس شرائط، تنخواہوں کے ڈھانچے اور کیریئر میں ترقی سے متعلق امور پر آل انڈیا ججز ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر ایک عرضی پر سماعت کے دوران یہ حکم جاری کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ میں ابتدائی سطح پر خدمات میں شامل ہونے والے افسران کے لیے ترقی کے محدود مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع حل کی ضرورت ہے۔
بینچ نے کہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے پہلے جاری کیے گئے نوٹسوں کے جواب میں کئی ہائی کورٹس اور ریاستی حکومتوں نے مختلف آراء پیش کی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا، "کچھ ہائی کورٹس کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں وہ جج جو ابتدا میں سول جج (جونیر ڈویژن) کے طور پر خدمت میں داخل ہوتے ہیں، وہ ڈسٹرکٹ جج کے عہدے تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوتے۔"
بینچ نے کئی ریاستوں میں پائی جانے والی ’’غیر متوازن صورتحال‘‘ کا نوٹس لیا، جہاں عدالتی افسران، جو فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ (JMFC) کے طور پر اپنا کیریئر شروع کرتے ہیں، اکثر پرنسپل ڈسٹرکٹ جج (PDJ) کے عہدے تک پہنچنے سے پہلے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں — ہائی کورٹ میں ترقی کی بات تو دور کی ہے۔
تاہم، سینئر وکیل آر۔ بسنّت نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا قدم ڈسٹرکٹ جج کے طور پر براہ راست تقرری کے خواہشمند قابل امیدواروں کے لیے غیر منصفانہ ہوگا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دونوں فریقوں کی جانب سے اٹھائی گئی تشویشات کو تسلیم کیا، لیکن ایک مناسب توازن قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا، "ایک نوجوان عدالتی افسر جو 25 یا 26 سال کی عمر میں سروس میں داخل ہوتا ہے اور صرف ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے طور پر ریٹائر ہوتا ہے، وہ فطری طور پر مایوسی محسوس کرے گا۔" چیف جسٹس نے مزید کہا، "نظامِ عدل کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کسی قسم کے توازن، کسی درمیانی راستے کی ضرورت ہے۔"
بینچ نے کہا، "بہر حال، پورے تنازع کو ختم کرنے اور ایک مستقل حل فراہم کرنے کے لیے ہمارا خیال ہے کہ اس معاملے کو پانچ رکنی آئینی بنچ کے سپرد کیا جائے۔" چیف جسٹس نے کہا کہ آخری مقصد انتظامیہ کی کارکردگی کو مؤثر بنانا ہے۔ انہوں نے جسٹس سندریش کا ایک واقعہ بھی یاد کیا، جنہوں نے بتایا تھا کہ ان کے ایک لاء کلرک نے عدالتی خدمت میں شامل ہونے کے صرف دو سال بعد ہی استعفیٰ دے دیا تھا، کیونکہ وہاں ترقی کے مواقع بہت محدود تھے۔