خود کو پاک و صاف کرنے کا مطلب ہے جہاد: عارف محمد خان

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-12-2021
خود کو پاک و صاف کرنے کا مطلب ہے جہاد: عارف محمد خان
خود کو پاک و صاف کرنے کا مطلب ہے جہاد: عارف محمد خان

 

 

عبدالحئی خان، نئی دہلی

خود کو پاک صاف کرنے کا مطلب جہاد ہے۔ہم آج تک جہاد کا مطلب دنیا کو نہیں سمجھا سکے ہیں اور جب قرآن کے حوالے سے جہاد کا مطلب سمجھایا جاتا ہے تب غیر مسلموں کو پتہ چلتا ہے کہ اصل میں جہاد کیا ہے؟

ان خیالات کا اظہار 'مسلم راشٹریہ منچ' اور 'راشٹریہ سرکشا جاگرن منچ' کے زیر اہتمام 'عالمی دہشت گردی بنام انسانیت، امن اور امکانات' کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں ریاست کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان نے کیا۔

انہوں نے اپنی بات کو جموں و کشمیر میں تشدد کے ایک واقعے سے شروع کیا کہ دہشت گردوں نے ایک بار ایک بس کے مسافروں کو اُتار کر ہندو اور مسلم میں فرق کرنے کے لیے ان سے قرآن کی آیات پڑھوائیں۔اور ان کو الگ الگ صفوں میں کھڑا کر دیا۔

پھر ایک میاں بیوی کا نمبرآیا لیکن وہ ہندو تھے۔ ان کے شوہر نے سنسکرت کا ایک شلوک عربی کے انداز میں پڑھنا شروع کیا اور وہ بچ گئے۔ اس پر ان کی بیوی کو بڑی حیرت ہوئی۔

اس پر عارف محمد خان نے کہا کہ یہ ایسے دہشت گرد تھے، جنہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ عربی کس طرح پڑھی جاتی ہے اور سنسکرت کس طرح۔ اس لیے دہشت گردی گمراہی پر چلنے کا ایک راستہ ہے۔اگران دہشت گردوں نے قرآن پڑھا ہوتا تو شاید وہ قتل و غارت گری نہ کر رہے ہوتے۔

عارف محمد خان نے جہاد بنام انسانیت کے موضوع کو قرآن کے احکامات کے پس منظر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ 'رابطہ عالم اسلامی' نے گیارہ ستمبر (9/11)دہشت گردی کی مذمت نہیں کی بلکہ سعودی عرب رابطہ عالم اسلامی کے دفاتر بند کردیے۔

awazthevoice

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی آئی اے کا دماغ رابطہ عالم اسلامی تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں مدارس کی تعلیم اور نصاب میں بھی اصلاحات پر زور دیا ہے۔

اس ضمن میں عارف محمد خان نے افغانستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اپنی حکمرانی کی خاطرعوام کو تشدد کے لیے مجبور کرنا اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کہاں کا اسلام ہے؟

آخر میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔اسلام کو سیاست کا آلہ کار بنانے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اور آج اسی کو جہاد کہا جاتا ہے۔ 

سوامی چیدانند سروستی منی جی مہاراج نے اس موضوع پر کہا کہ ہمیں روشنی نہیں مل رہی ہے۔ جس پرہم عمل کرسکیں۔ زیادہ تر لوگ گمراہ کرتے ہیں، آج مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کو قرآن کی روشنی کی ضرورت ہے۔ ہمیں 'قصاب' کی نہیں 'کلام' کی بات کرنی چاہئے۔جہاد کا مطلب خود کو خدا سے جوڑنا ہے نہ ذاتی مقاصد کے لیے مذہبی تعلیمات کا غلط استعمال کرنا۔

اس سے قبل مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار نے کہا کہ دنیا آج بھی دہشت گردی، تشدد، انتہا پسندی کے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ آج کے حالات میں ایسا سماج اور حکمراں نظر آتے ہیں جو مذہبی انتہا پسندی کے نام پر اپنے ہی لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان اسی طرح کے حالات میں اقتدار پر قابض ہوئے ہیں، جو ساری دنیا کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آج کی کوشش سے ہو سکتا ہے کہ ہمیں ان مسائل کو حل کرنے میں کچھ مدد مل سکے۔

سیمینار میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور، پٹنہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد، اور جامعیہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر بھی موجود تھیں۔